وحشی اکثریت ،( Brute Majority ) پروفیسر قیصر عباس
وحشی اکثریت ،( Brute Majority ) پروفیسر قیصر عباس
یہ کہانی ہے 1970ء کے انتخابات کے بعد کی ۔پاکستان بننے کے بعد پہلے عام انتخابات 1970ء میں ہوئے ۔جس کے نتیجے میں شیخ مجیب الرحمٰن نے 169میں سے ایک 167نشستیں حاصل کی جب کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی نے144میں سے 81 نشستیں حاصل کی ۔وفاق کے ایک اصول کے مطابق درالحکومت مغربی پاکستان کے شہر اسلام آباد کو ٹھہرایا گیا تھا جب کہ پارلیمنٹ کے اجلاسوں کے لئے مشرقی پاکستان کے شہر ڈھاکہ کو منتخب کیا گیا تھا ۔آسان لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ وفاقی انتظامیہ کا مرکز اسلام آباد اور وفاقی مقننہ کا مرکز ڈھاکہ تھا۔اب چونکہ انتخابات میں شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ واضح اکثریت حاصل کر چکی تھی اور شیخ مجیب الرحمٰن جلد اقتدار کی منتقلی چاہتے تھے لیکن دوسری طرف ذوالفقار علی بھٹو جنہوں نے مغربی پاکستان میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی تھی وہ شراکت اقتدار چاہتے تھے مگر شیخ مجیب الرحمٰن اس پر راضی نہ تھے ۔چاہے تو یہ تھا کہ شیخ مجیب الرحمٰن حکومت چلاتے اور ذوالفقار علی بھٹو بطور اپوزیشن لیڈر فرائض ادا کرتے لیکن ایسا وہ کرنا نہیں چاہتے تھے بھٹو صاحب ہر صورت میں حکومت کا حصہ بننا چاہتے تھے ۔جب یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان کا دورہ کیا اور شیخ مجیب الرحمٰن سے ملاقات کی تو شیخ مجیب نے یحیٰی خان کو نئی منتخب شدہ پارلیمان کا اجلاس بلانے پر قائل کر لیا اور یہ فیصلہ بھی ہو گیا کہ نئی منتخب شدہ پارلیمان کا اجلاس جلد ہی ڈھاکہ میں بلایا جائے گا جہاں قائد ایوان “وزیر اعظم”کا انتخاب کر لیا جائے گا۔بس اس خبر کی بھنک ذوالفقار علی بھٹو کے کانوں میں پڑ گئی تو انہوں نے مینار پاکستان میں اپنا مشہور زمانہ جلسہ کیا جس میں خطاب کرتے ہوئے اپنا وہ جملہ بھی کہہ دیا جو بعد میں سیاسی تاریخ کا حصہ بن گیا۔”مغربی پاکستان سے جو منتخب شدہ رکن پارلیمنٹ ڈھاکہ جائے گا میں اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا ۔”یہ دھمکی بھٹو صاحب نے نہ صرف اپنی جماعت کے منتخب شدہ اراکین پارلیمنٹ کو دی بلکہ عمومی طور پر ان اراکین کے لئے بھی تھی جو مغربی پاکستان سے آئین ساز اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے تھے ۔اس کے بعد حالات خراب سے خراب تر ہوتے گئے اور پھر 16اکتوبر کا وہ دن بھی آیا جب ملک خدا داد دولخت ہو گیا ۔ٹھیک 54 سال بعد ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی وارث جناب بلاول بھٹو زرداری نے بھی وہی لب ولہجہ استعمال کرتے ہوئے 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لئے استعمال کیاجب انہوں نے کہا کہ اگر جے یو آئی” ف “اور تحریک انصاف اس ترمیم پر راضی نہ ہوئیں تو پھر نہ چاہتے ہوئے بھی ہمیں” Brute Majority” سے اس ترمیم کو پاس کروائیں گے ۔بدقسمتی سے انہوں نے اپنے نانا کی یاد تازہ کر دی اور یہ ثابت کر دیا کہ وہ واقعی ہی ذوالفقار علی بھٹو کے حقیقی وارث ہیں ۔جس طرح اراکین پارلیمنٹ سے ووٹ لئے گئے وہ اب کوئی راز نہیں رہا۔کہانی اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہے ۔بلاول کی والدہ نے بھی 90 کی دہائی میں ایسا ہی کھیل کھیلا تھا جب انہوں نے سب سے جونئیر جج سید سجاد علی شاہ کو چیف جسٹس لگا دیا تاکہ ان سے مرضی کے فیصلے لئے جا سکیں ۔مگر بعد میں سجاد علی شاہ نے محترمہ کے ساتھ جو کیا اور خود سجاد علی شاہ کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ بھی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے ۔بلکہ شنید ہے محترمہ تو لاہور سے اپنے ایک سیاسی ورکر جہانگیر بدرکو چیف جسٹس آف پاکستان لگانا چاہتی تھی۔موجودہ صورت حال میں بھی بلاول نے تقریباً وہی کھیل کھیلا ہے ۔26 آئینی ترمیم کی آڑ میں اپنے پسند کا خیال رکھتے ہوئے ایسا جال بچھایا ہے کہ ایسے جج کا راستہ روکا جا سکے جس کے چیف جسٹس بننے سے ان کے لئے مسائل کھڑے ہونگے۔اس سارے کھیل میں موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس زبردست قانونی طریقے سے ان کی “سہولت کاری” کی ہے تاکہ حکومت اپنی مرضی کے مطابق 26ویں ترمیم پاس کروا لے ۔قاضی صاحب نے سب سے پہلے مخصوص نشستوں کے حوالے سے یہ فیصلہ دیا کہ یہ نشتیں تحریک انصاف یا پھر سنی اتحاد کونسل کا حق نہیں بلکہ دیگر جماعتوں میں تقسیم کی دی جائیں ۔جب کہ اس حوالے سے جسٹس منصور علی شاہ اور دیگر آٹھ ججز دو بار اس فیصلے کی وضاحت کر چکے ہیں کہ ان مخصوص نشستوں پر پی ٹی آئی کا ہی حق ہے ۔ابھی بھی یہ معاملہ سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن میں زیر التوا ہی ہے ۔اس کے بعد قاضی صاحب نے آئین کے آرٹیکل 63 اے پر نظر ثانی کا کیس سنا ۔جس میں اس وقت کے صدر عارف علوی نے سپریم کورٹ سے 63 اے کے بارے تشریح کی درخواست کی تھی جس کے نتیجے میں عمر عطا بندیال پر مشتمل ایک بنچ نے اس کی وضاحت یوں کی تھی کہ جو رکن پارلیمنٹ اپنے جماعت کی پالیسی کے خلاف ووٹ دے گا اس کا ووٹ شمار نہیں ہوگا بلکہ ایسا رکن ڈی سیٹ ہو جائے گا ۔اس کا مقصد” لوٹاکریسی “کو روکنا تھا ۔لیکن نظر ثانی کیس میں قاضی صاحب پر مشتمل بنچ نے 63 اے کے فیصلے کو کالعدم قرار دیکر” لوٹا کریسی” کا راستہ کھول دیا ۔ایسا کیوں کیا گیا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے لئے دو تہائی اکثریت چاہئے تھی جو کہ حکومت کے پاس نہیں تھی نہ ہی سینٹ میں اور نہ ہی قومی اسمبلی میں ۔اگر آئین کا آرٹیکل 63 اے برقرار رہتا تو حکومت مطلوبہ مقاصد حاصل نہ کر پاتی اس لئے پہلے 63 اے کا خاتمہ کیا گیا تاکہ اراکان پارلیمنٹ کو توڑنے کے بعد ان کا ووٹ بھی کاوئنٹ ہو جائے ۔حکومت کا قومی اسمبلی میں اس ترمیم کو دو تہائی اکثریت سے پاس کروانے کے لئے پانچ اراکین قومی اسمبلی کے ووٹ کی ضرورت تھی اور حکومت نے تحریک انصاف کے نام پر ووٹ حاصل کرنے والے پانچ اراکین مبارک زیب ٫اورنگزیب کچھی ٫مقداد علی ٫چوہدری الیاس اور عثمان علی کے ووٹ سے 26ویں آئینی ترمیم پاس کروا لی ہے ۔اب منصور علی شاہ کی جگہ جسٹس یحییٰ آفریدی یا ان کے انکار کے بعد جسٹس امین الدین متوقع چیف جسٹس بن سکتے ہیں ۔لیکن اس سارے کھیل میں بلاول بھٹو کیوں اتنے سرگرم رہے؟ اس کی بنیادی وجہ شاید یہ ہے کہ “مقتدر حلقوں” کی طرف سے یہ یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ ایوان وزیر اعظم میں اگلے مکین آپ ہونگے ۔بلاول بھی اپنے نانا کی طرح ہوس اقتدار کا شکار ہو کرنہ صرف ” Brute Majority” کا نعرہ لگایا بلکہ اس پر عمل بھی کروا دیا ۔ column in urdu
وزیر صحت گلگت بلتستان راجہ محمد اعظم خان کا شگر کے بالائی علاقہ برالدو کے مختلف علاقوں کا دورہ
اردو شاعری کا ایک حوالہ”عارف سحاب“ سکینہ اسوہ گرلز کالج سکردو
طلباء تحریک، پروفیسر قیصر عباس
وزیر صحت گلگت بلتستان راجہ محمد اعظم خان کا شگر کے بالائی علاقہ برالدو کے مختلف علاقوں کا دورہ