یوم آزادی اور پاکستان میں ترقی کا سفر

column in urdu

یوم آزادی اور پاکستان میں ترقی کا سفر !
ملک خداداد میں ایک بار پھر سے آزادی کا دن منایا گیا ۔چونکہ پاکستان 14 اگست 1947ء کو معرض وجود میں آیا اس لئے اس دفعہ پاکستان کا ستترواں یوم آزادی منایا گیا ۔لیکن سوال یہ ہے کہ ان ستتر سالوں میں ہم سے بعد یا ہمارے ساتھ آزاد ہونے والی قوموں نے ترقی کی منازل طے کر لیں لیکن ابھی تک ہم اپنی منزل کا تعین نہیں کر سکے۔ابھی تک ہم گوناگوں کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔اگرچہ ملک عزیز واحد اسلامی ملک ہے جو کہ ایٹمی قوت ہے مگر ہماری معاشی حالت اس قدر پتلی ہے کہ آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے کشکول تھامے کھڑے رہتے ہیں اور ایسا تو کئی بار ہو چکا ہے کہ اگر ہمارے کچھ برادر اسلامی اور دوست ممالک مشکل وقت میں ہمیں ریسکیو کرنے نہ آتے تو ہم دیوالیہ ہو چکے ہوتے ۔یہ بات درست ہے کہ قوموں کی زندگی میں ایسے آزمائش کے وقت لازمی آتے ہیں جن سے گزر کر قومیں ترقی کا سفر کامیابی سے طے کر لیتی ہیں٫ ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہو رہا ہے مگر ہمارا مشکلات بھرا سفر ختم ہونے کا نام تک نہیں لے رہا ۔ایسا لگتا ہے جہاں سے سفر شروع ہوا تھا ہم گھوم پھر کے ابھی ادھر ہی کھڑے ہیں ۔اگر ملک میں چند اقدامات کر لئے جائیں تو عین ممکن ہے کہ ملکی مسائل کلی طور پر ختم نہ بھی ہوں لیکن ان میں کمی ضرور آسکتی ہے ۔سب سے پہلے آزاد اور منصفانہ انتخابات کسی بھی جمہوری ملک کے لئے ناگزیر ہیں اس کے لئے سب سے ضروری کام الیکشن کمیشن بطور ادارہ مضبوط ہو تاکہ شفاف انتخابات کے راہ میں کوئی ادارہ بھی روڑے نہ اٹکا سکے ۔دنیا میں صرف دو ممالک ایسے ہیں جہاں نگران حکومتیں بنتی ہیں ایک ملک کا نام پاکستان ہے جب کہ دوسرا بنگلہ دیش ۔جب کہ باقی جمہوری ممالک میں یہ تصور بالکل نہیں ہے اور “سٹنگ گورنمنٹ “کے ہوتے الیکشن کمیشن ہی نئے انتخابات کرواتا ہے کیونکہ حکومت الیکشن کے دوران اپنے تمام اختیارات سے محروم ہوتی ہے اور عملاً اختیارات الیکشن کمیشن کے پاس ہوتے ہیں۔دوسرا کام ٹیکس کے نظام کو بہتر کیا جائے اگر ہم ترقی یافتہ ممالک کی مثال دیتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ وہاں عوام کو بے شمار سہولتیں میسر ہیں تو اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ان کے ہاں ٹیکس چوری سب سے بڑا جرم ہے ۔جب کہ ہمارے ہاں ٹیکس چوری کو جرم سمجھا ہی نہیں جاتا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ٹیکس ہمارے مقرر کردہ ہدف سے کم اکھٹا ہوتا ہے پھر ہمیں اپنے اخراجات کو پورا کرنے کے لئے عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لینا پڑتا ہے.عالمی مالیاتی ادارے بڑے ممالک کی آشیر باد سے ہی چھوٹے ممالک کو قرض دیتے ہیں جس کے بدلے وہ اپنے مطالبات منواتے ہیں یوں ترقی پزیر ممالک بظاہر تو ہر سال اپنا یوم آزادی مناتے ہیں مگر وہ آزاد نہیں ہوتے ۔پاکستان میں تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک نئے” معاہدہ عمرانی” کی ضرورت ہے پاکستان میں چونکہ پارلیمانی نظام ہے۔پارلیمانی نظام کی خصوصیت یہ ہے کہ عوام کی منتخب کردہ جماعت کو حکومت بنانے کا موقع دیا جائے ایسی جماعت یا جماعتیں جن کو کم ووٹ پڑیں وہ حزب اختلاف کا کردار ادا کریں ملک میں تسلسل کے ساتھ انتخابات ہوں کیونکہ انتخابات کا عمل بھی احتسابی عمل ہے اگر کوئی جماعت ووٹ حاصل کرکے عوام کی خواہشات کے مطابق کام نہیں کرے گی تو آنے والے انتخابات میں عوام اس جماعت کو مسترد کر دیں گے ۔مققنہ کا کام قانون سازی ہے جب کہ انتظامیہ کا کام مقننہ کے بنائے ہوئے قوانین پر عمل کروانا ہے ۔اگر مقننہ کوئی مبہم قانون سازی کرے تو اس کی تشریح کی ذمہ داری عدلیہ کے پاس ہے ۔مقننہ نہ تو کوئی ایسا قانون بنائے جو آئین کے بنیادی اصولوں سے متصادم ہو اور نہ ہی ایوان عدل میں بیھٹے ہوئے ججز پارلیمنٹ کے قانون کو اپنے قلم کی زور سے مسترد کر دیں ۔یعنی ججز کا رویہ بھی آمرانہ نہیں ہونا چاہئے۔دوسرے لفظوں میں ہر ادارہ اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے اپنے فرائض ادا کرے ۔ نظام تعلیم میں انقلابی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے تعلیم برائے تعلیم کی بجائے ٹیکنیکل تعلیم پر زور دیا جائے کیونکہ موجودہ دور میں skilled persons ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔عوام کو بھی اپنے رویوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے کیونکہ حکمران ہم میں سے ہی ہیں جب تک ہمارا اپنا مزاج تبدیل نہیں ہوتا تب تک حکمرانوں کے مزاج میں تبدیلی لانا ممکن نہیں ہے ۔ہمیں جمہوری رویوں کو اپنے مزاج میں راسخ کرنا پڑے گا ۔ورنہ ہر سال یوم آزادی منانے کےباوجود ہم حقیقی سے محروم ہی رہے گے۔

یوم الحسین ع کانفرس“ حامد حسین شگری

وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کا یونیورسٹی انڈومنٹ فنڈز کے فراہمی کے لیے کلیدی کردار ادا کرنے کا وعدہ


50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں