column in urd, economic burden of Gilgit-Baltistan, Gilgit baltistan tourism 0

گلگت بلتستان آئینی شناخت کے بغیر معاشی بوجھ کیوں؟امتیاز گلاب بگورو
گلگت بلتستان کی حیثیت ایک آئینی خلا میں معلق ہے۔ 1947 میں یہاں کے عوام نے خود فیصلہ کر کے ڈوگرہ راج سے آزادی حاصل کی اور بغیر کسی شرط کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا۔ اس کے باوجود، 75 سال بعد بھی یہ علاقہ پاکستان کے آئین کا باقاعدہ حصہ نہیں بن سکا۔
آرٹیکل 1 (آئینِ پاکستان) میں گلگت بلتستان کا کوئی ذکر نہیں۔ اسے نہ تو ایک مکمل صوبے کا درجہ حاصل ہے، نہ آزاد کشمیر کی طرز پر کوئی مخصوص حیثیت۔ اس کا انتظامی کنٹرول مختلف ادوار میں وزارتِ امور کشمیر، وزارتِ داخلہ اور اب وزارتِ امور گلگت بلتستان کے تحت چلتا رہا ہے۔
وفاقی حکومت کی طرف سے جب گلگت بلتستان پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی، کسٹمز ڈیوٹی، انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس، اور پیٹرولیم لیوی لاگو کی جاتی ہے تو ایک بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے:کیا ایک ایسا خطہ جو آئینی طور پر ملک کا حصہ ہی نہیں، اس پر ملک کے معاشی قوانین کا اطلاق جائز ہے؟قارئین کرام یہی وہ نکتہ ہے جو گلگت بلتستان کے عوام کو احساسِ محرومی کی گہرائی میں دھکیل رہا ہے۔ سوست بارڈر ماضی سے حال تک تجارت کا محور ہےگلگت بلتستان کا ضلع ہنزہ اور اس میں واقع سوست کا علاقہ تاریخی طور پر پاک چین تجارت کا مرکز رہا ہے۔ خنجراب پاس سے شروع ہونے والی تجارت 1980 کی دہائی میں باقاعدہ سرکاری تعاون سے شروع ہوئی۔ ماضی میں یہاں تجارت خچروں، گھوڑوں اور گدھوں کے ذریعے ہوتی تھی، آج وہی تجارتی راستہ سی پیک (CPEC) کا حصہ بن چکا ہے۔
تاہم، سی پیک جیسے بڑے منصوبے کی بنیاد رکھنے والے اس خطے میں آج بھی نہ جدید انفرسٹرکچر مکمل ہے
نہ بین الاقوامی معیار کی کسٹمز سہولیات اور نہ ہی تاجر دوست پالیسی جب تجارت میں آسانی دینے کی بجائے نئے ٹیکسز اور لیویز لگا دی جائیں تو یہ معاشی قتل کے مترادف ہوتا ہے یہ وہی علاقہ ہے جو پاکستان کی سالمیت کا سرحدی محافظ ہے، جہاں سے چین، بھارت، افغانستان، اور تاجکستان کی سرحدیں ملتی ہیں۔ مگر افسوس، یہی خطہ آج بھی پاکستان کے آئین میں مکمل طور پر شامل نہیں۔
یہ ایک بنیادی اصول ہے کہ “نمائندگی کے بغیر ٹیکس نہیں”مگر گلگت بلتستان میں صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے۔نہ یہاں کے عوام کو قومی اسمبلی یا سینیٹ میں مکمل نمائندگی حاصل ہے، نہ ان کی رائے پالیسی سازی میں شامل کی جاتی ہے لیکن ان پر وہی ٹیکس لاگو کر دیے جاتے ہیں جو باقی ملک پر ہوتے ہیں۔
یہ ریاستی رویہ اس خطے کے عوام کے لیے ایک کھلا پیغام ہے کہ انہیں صرف “وسائل” یا “زمین” کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، نہ کہ ایک زندہ، باشعور، اور باعزت قوم کے طور
مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ یہاں تجارت کو آسان بنانے کے بجائے ٹیکسوں، کسٹمز، اور لیویز کی آڑ میں نہ صرف رکاوٹیں پیدا کی جا رہی ہیں بلکہ مقامی کاروبار کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ اس وقت بھی سوست میں تاجر برادری سخت احتجاج پر ہے، مگر ان کی بات سننے والا کوئی نہیں۔ ۔وفاقی حکومت اور گلگت بلتستان کے نمائندوں کے درمیان حالیہ مذاکرات کے نتیجے میں 4 ارب روپے کی ریلیف کا اعلان کیا گیا۔ اگر اسے پورے علاقے کی آبادی پر تقسیم کیا جائے تو یہ فی کس 1811 روپے بنتا ہے۔
یہ ریلیف نہ تاجر برادری کے مطالبات کو پورا کرتا ہےنہ عوامی مہنگائی کے طوفان کا حل پیش کرتا ہےاور نہ ہی کسی بڑی پالیسی تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے
یہی وجہ ہے کہ اس “معاہدے” کو نہ صرف سوست کے تاجروں نے بلکہ عوامی سطح پر بھی مسترد کر دیا گیا ہےیہ علاقہ جغرافیائی لحاظ سے پاکستان کی سٹریٹیجک ہائی وے ہےچین کے ساتھ سرحد تجارتی و سفارتی اہمیت بھارت کے ساتھ سیاچن و لداخ کے محاذ دفاعی اہمیت
افغانستان اور واخان راہداری ممکنہ تجارتی کنیکٹیویٹی
تاجکستان سے قریبی فاصلہ وسطی ایشیا تک رسائی لیکن یہ سوال اہم ہے کہ جس خطے کو جغرافیائی لحاظ سے اتنا اہم مانا جاتا ہے، اسے سیاسی اور آئینی لحاظ سے اتنا کمزور کیوں رکھا گیا ہے؟سوست میں تاجر برادری کا احتجاج اب صرف تجارتی حقوق کا مطالبہ نہیں بلکہ ایک سیاسی بیداری کی علامت بن چکا ہے۔ عوام سمجھ چکے ہیں کہ جب تک آئینی حیثیت نہیں ملے گی،جب تک مکمل سیاسی نمائندگی حاصل نہیں ہوگی،اور جب تک معاشی خودمختاری نہیں ملے گی،
تب تک انہیں بار بار ریلیف، کمیٹیوں اور وعدوں کے ذریعے ٹالا جاتا رہے گا۔ریاست کو اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا وہ اس وفادار خطے کو صرف جغرافیائی زون سمجھتی ہے؟کیا ریاستی پالیسیاں صرف سلامتی اور تجارت کے لیے ہیں، یا عوام کی فلاح کے لیے بھی؟
کیا اب بھی وہ دن دور ہے جب گلگت بلتستان کو آئینی شناخت، معاشی خودمختاری، اور سیاسی آزادی دی جائے گی؟
قارئین کرام ۔ آئینی حیثیت کا حتمی تعین چاہے عبوری صوبہ یا مخصوص علاقائی اسٹیٹس مکمل ٹیکس فری زون کا نفاذ جب تک آئینی حیثیت طے نہ ہو سوست بارڈر کو ماڈرن ٹریڈ ہب بنایا جائے کسٹمز، بینکنگ، انشورنس، اور وئیر ہاؤس کی سہولتوں کے ساتھ مقامی قیادت سے براہِ راست مذاکرات کمیٹیوں میں صرف منتخب افراد کو شامل کیا جائے ریاستی اداروں کی مشترکہ پالیسی سیاسی، عسکری اور انتظامی ادارے ایک قومی پالیسی مرتب کریں
محترم قارئین کرام اب وقت ہے کہ محرومی کو شناخت میں بدلا جائےگلگت بلتستان کے عوام نے کبھی بغاوت نہیں کی، بلکہ ہر موقع پر پاکستان کے ساتھ کھڑے رہے۔ اب ریاست کی باری ہے کہ وہ اس محبت کا جواب دے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تووفاداری کو استحصال میں بدلنے کی یہ روش کسی دن ایسا زخم دے سکتی ہے، جس کا علاج صرف الفاظ سے ممکن نہیں ہوگا یہ کالم صرف ایک رائے نہیں، ایک پکار ہے۔ ایک درخواست ہے اُن اربابِ اختیار سے کہ اب مزید تاخیر نہ کریں، کیونکہ گلگت بلتستان کے عوام صرف “انتظار” کرنا نہیں جانتے وہ تاریخ لکھنا بھی جانتے ہیں۔

Thank you for reading this post, don't forget to subscribe!

اہم ترین کالمز کے لنک ملاحظہ فرمائیں‌

سوست کا دھرنا کون سا سودا ہو رہا ہے؟ ایس ایم مرموی

عوام کے ہاتھوں سے چھنا گیا نظام، ایس ایم مرموی

صحافت کا آئینہ ٹوٹ رہا ہے، ایس ایم مرموی

غیر قانونی طور دریا کنارے تعمیرات ہیمل لکسس ریزورٹ شگر کے 18 کمرے سیل 1180000 روپے جرمانہ، اسٹے آرڈر کے باجود سیل کر دیا، ہوٹل انتظامی
column in urd, economic burden of Gilgit-Baltistan, Gilgit baltistan tourism

50% LikesVS
50% Dislikes

گلگت بلتستان آئینی شناخت کے بغیر معاشی بوجھ کیوں؟امتیاز گلاب بگورو

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں