civilization, culture and modern thinking of Gilgit-Baltistan, 0

گلگت بلتستان کی بدلتی تہذیب و ثقافت اور ماڈرن سوچ ، یاسر دانیال صابری
گلگت بلتستان کی بیٹیاں آج ایک ایسے المیے سے دوچار ہیں جس کا تصور بھی دل دہلا دیتا ہے۔ یہ خطہ جو اپنی سادہ لوحی اور پاکیزگی کے لیے جانا جاتا تھا، آج اپنی بیٹیوں کی عزت و وقار کے تحفظ میں ناکام دکھائی دیتا ہے۔ آئے روز ایسی خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ تعلیمی سکالرشپ یا روزگار کے نام پر پاکستان کے دیگر صوبوں یا بڑے شہروں کا رخ کرنے والی کئی بچیاں لاپتہ ہو جاتی ہیں۔ کچھ خودکشی پر مجبور ہوتی ہیں، کچھ ہوس کے اڈوں کی زینت بن جاتی ہیں، کچھ ہاسٹلوں سے پراسرار طور پر گم ہو جاتی ہیں۔ ان کے والدین اکثر غریب کسان یا مزدور ہوتے ہیں، جو اپنی بیٹیوں کے خوابوں کے لیے بڑی قربانیاں دیتے ہیں مگر جب ظلم کی یہ انتہا سامنے آتی ہے تو ان کی آہیں سننے والا کوئی نہیں ہوتا۔ گلگت کے ایک عام مزدور یا کسان کے پاس نہ اتنے وسائل ہیں کہ وہ بڑے شہروں میں جا کر انصاف کی دہائی دے سکے، نہ اتنے تعلقات کہ اپنی بیٹی کو واپس لا سکے۔ معاشرے کے اس بھیانک پہلو پر خاموشی اختیار کر لینا دراصل اس ظلم میں شریک ہونا ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم سب بیدار ہوں، اپنی بیٹیوں کی حفاظت کو اولین ترجیح دیں اور تعلیم کو گھر کی دہلیز پر عام کریں تاکہ غریبوں کی ہونہار بچیاں ظلم و جبر کے اندھیروں میں گم نہ ہوں۔
آج ہماری نئی نسل کہاں جا رہی ہے؟ یہ وہ سرزمین تھی جہاں خواتین کی عزت کو معاشرتی زینت سمجھا جاتا، خاندان کا ہر فرد دوسرے کے احترام کو اپنی ذمہ داری جانتا، اور بزرگوں کا ادب، مہمان نوازی اور شرافت معاشرت کی بنیاد ہوا کرتی تھی۔ لیکن آج یہ خطہ ایک ایسے تہذیبی دباؤ کا شکار ہے جس نے ان مضبوط بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
ایک دور تھا جب بیرونی اثرات محدود تھے، گھر میں ٹی وی نہیں ہوتا تھا، موبائل فون عام نہ تھے، اور خاندان معاشرے کی اصل اکائی تھا۔ خاندان ہی بنیادی درسگاہ کا کردار ادا کرتا تھا۔
مگر دو دہائیوں میں تہذیب و ثقافت کا منظرنامہ بدل گیا۔ جدید تعلیم، انٹرنیٹ، موبائل فون اور سوشل میڈیا نے دنیا کو ایک چھوٹے گاؤں میں بدل دیا یہ بظاہر ترقی ہے مگر اس کے اثرات ہماری روایتی اقدار پر بہت گہرے ہیں۔ ٹک ٹاک اور انسٹاگرام جیسے پلیٹ فارم نے شہرت کو زندگی کا سب سے بڑا مقصد بنا دیا ہے۔ کچھ نوجوان لڑکیاں چند لمحوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ایسے ویڈیوز بناتی ہیں جو مقامی روایات اور شرم و حیا سے یکسر متصادم ہیں۔ بھارتی گانوں پر رقص، پینٹ شرٹ یا مغربی لباس پہن کر ویڈیو بنانا اور پھر اسے ہزاروں فالوورز تک پہنچانا اب فیشن سمجھا جانے لگا ہے۔ ان ویڈیوز کی مقبولیت دیکھ کر دیگر لڑکیاں بھی اسی دوڑ میں شامل ہوتی ہیں اور یوں یہ رجحان تیزی سے معاشرتی معمول بنتا جا رہا ہے۔ یہ والدین کی سب سے بڑی غفلت ہے۔
قومی اور علاقائی ٹی وی چینلز پر بھی نمائش اور بناوٹ کی دوڑ جاری ہے۔ بعض خواتین اینکرز ضرورت سے زیادہ میک اپ کر کے سکرین پر آتی ہیں۔ مہنگے کاسمیٹکس پر چھ سے دس ہزار روپے کا خرچ والدین کی جیب پر بھی بوجھ ڈال رہا ہے لیکن شہرت اور خوبصورتی کی اس دوڑ کو سب نے ایک “معمول” سمجھ لیا ہے۔ سکرین کے اس چمکدار منظر کے پیچھے ایک خاموش پیغام ہے: حسن کی نمائش ترقی کی علامت ہے۔ یہی پیغام نوجوان نسل کے ذہنوں میں اتر رہا ہے۔
یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ اس کا جواب ہمارے گھروں کی تربیت میں پوشیدہ ہے۔ ہماری یونیورسٹیوں میں بے پردگی عام ہے۔ آج کل بغیر پردہ، لمبے بالوں والی خوبصورت لڑکی نیشنل میڈیا کی زینت اور چہرہ بن رہی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری پہچان مٹنے کو ہے۔ والدین جنہیں بچوں کے لیے پہلی درسگاہ ہونا چاہیے، وہ خود مغربی انداز کو ترقی سمجھ کر اولاد کو اندھی تقلید کی راہ پر ڈال رہے ہیں۔ بیٹیاں والدین کے سامنے ناچ گانا معیوب نہیں سمجھتیں اور والدین بھی اسے “ماڈرن سوچ” کا حصہ سمجھ کر خاموش رہتے ہیں۔ تعلیم اور روزگار کے لیے بڑے شہروں کا رخ کرنے والی لڑکیاں وہاں کے ماحول سے متاثر ہو کر واپس آتی ہیں اور وہی رنگ اپنانے لگتی ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ معاشی دباؤ اور مواقع کی کمی نے والدین کی ترجیحات بدل دی ہیں۔ اب گھر کا بیشتر وقت روزگار کی دوڑ میں گزرتا ہے اور اولاد کی اخلاقی تربیت ثانوی ہو کر رہ گئی ہے۔ یوں نئی نسل رہنمائی کے بجائے سوشل میڈیا سے سیکھ رہی ہے، جہاں شہرت اور نمائش کے سوا کچھ نہیں۔ اسلام نے حیا کو ایمان کا حصہ قرار دیا ہے۔ قرآن اور احادیث میں بارہا تنبیہ کی گئی ہے کہ حسن کی نمائش اور بدنظری معاشرت کو تباہ کر دیتی ہے۔ لیکن جب کسی قوم کی بنیادیں کمزور ہوں اور وہ اپنی اصل کو بھول جائے تو بیرونی تہذیب اسے اپنی رنگت میں ڈھال لیتی ہے۔ آج ہمارے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے۔
سیاحت علاقے کی معیشت کے لیے مفید ہے لیکن اس کے کچھ منفی پہلو بھی ہیں۔ ملک کے مختلف حصوں اور بیرونِ ملک سے آنے والی خواتین جب مقامی روایات سے ہٹ کر لباس اور انداز اپناتی ہیں تو نوجوان نسل پر اس کے اثرات گہرے پڑتے ہیں۔ سیاحتی موسم میں مقامی نوجوان بھی مغربی طرز کے لباس اور انداز اپنانے لگتے ہیں۔ یہ تبدیلی محض وقتی نہیں بلکہ ایک نئے طرزِ زندگی کا پیش خیمہ بن رہی ہے۔
یہ زوال صرف لباس یا میک اپ تک محدود نہیں۔ اس کے اثرات خاندانی نظام پر بھی پڑتے ہیں۔ جب حیا کمزور ہو تو ازدواجی رشتوں میں اعتماد گھٹتا ہے۔ نوجوان نسل کے لیے شادی کے پاکیزہ رشتے کی کشش کم ہوتی ہے اور غیر اخلاقی تعلقات بڑھتے ہیں۔ نتیجہ معاشرتی بے سکونی، ذہنی دباؤ اور نفسیاتی بیماریوں کی صورت میں نکلتا ہے۔
یہ سب دیکھ کر دل میں سوال اٹھتا ہے: کیا یہ زوال روکا جا سکتا ہے؟ جواب ہے ہاں مگر اس کے لیے ہمیں اجتماعی بیداری کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے والدین کو اپنی ذمہ داری سمجھنی ہوگی۔ گھر ہی وہ پہلی درسگاہ ہے جہاں بچہ سیکھتا ہے کہ کیا درست ہے اور کیا غلط۔ اگر والدین خود فیشن پرستی کو ترقی سمجھیں گے تو اولاد کس سے سیکھے گی؟ تعلیمی اداروں کو نصاب کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت کو بھی لازمی بنانا ہوگا۔ علمائے کرام اور مقامی رہنما خطباتِ جمعہ اور کمیونٹی پروگراموں میں اس مسئلے پر مسلسل بات کریں۔ میڈیا ہاؤسز کو چاہیے کہ وہ شہرت کی دوڑ کے بجائے مثبت کردار اور مقامی ثقافت کو اجاگر کریں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ تبدیلی کو مکمل طور پر روکا نہیں جا سکتا۔ دنیا بدل رہی ہے اور نوجوانوں کو تعلیم اور جدید دنیا کے تقاضوں کے ساتھ چلنا ہوگا۔ مگر ہم اپنی اقدار کو جدید تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ ضرور کر سکتے ہیں۔ خواتین کے لیے تعلیم اور پیشہ ورانہ مواقع فراہم کرتے وقت حیا کی تعلیم دی جا سکتی ہے۔ سیاحت کے فروغ کے ساتھ ساتھ مقامی ثقافت کے تحفظ کے لیے ضابطے بنائے جا سکتے ہیں۔
گلگت بلتستان کی اصل طاقت اس کی وہی سادہ اور باحیا روایات ہیں جو ہمارے آبا نے ہمیں دی ہیں۔ یہی ہماری بقا کی ضمانت ہیں۔ اگر ہم نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو آنے والی نسلیں صرف تاریخ کی کتابوں میں پڑھیں گی کہ کبھی یہاں ایک ایسی سرزمین تھی جہاں حیا، عزت اور ثقافت ایک دوسرے کا عکس تھیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنی پہچان کو سنبھالیں۔ والدین، اساتذہ، میڈیا، علمائے کرام اور نوجوان سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ صرف الزام تراشی سے کچھ نہیں ہوگا۔ جب ہم اپنے گھروں سے اصلاح شروع کریں گے تو یہی روشنی معاشرے کے ہر کونے تک پہنچے گی اور گلگت بلتستان ایک بار پھر اپنی اصل سادہ، باوقار اور باحیا شناخت کے ساتھ دنیا کے سامنے کھڑا ہوگا۔وسلام

civilization, culture and modern thinking of Gilgit-Baltistan,

50% LikesVS
50% Dislikes

گلگت بلتستان کی بدلتی تہذیب و ثقافت اور ماڈرن سوچ ، یاسر دانیال صابری

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں