غزل . سماعتوں اور بصارتیں اپنی پچھاڑ چکا ہوں زاویؔ
میں بازارِ ذوق کا مصرعہ
لفظوں کی تجارت کر نہیں سکتا
سُنا کر داستانِ ہجر و فراق
وصل کا جارحانہ قتل کر نہیں سکتا
زباں کپکپانے لگی ہے سمجھ کر
آہوں، سسکیوں کا تماشہ کر نہیں سکتا
شاعر ہونے سے کہیں ضروری ہے انسان ہونا
اور میں آدمیت کا ظلم جَر نہیں سکتا
سفاک پن کی پرت بڑی مشکل سے اتری ہے
مخلوط فطرت کو یک چہرہ کر نہیں سکتا
تماشۂ سُخن، رسوائیۂ جذبات، تذلیلِ ادب
میں فاتح عمل نہیں، درسِ کاملیت پڑھ نہیں سکتا
سماعتوں اور بصارتیں اپنی پچھاڑ چکا ہوں زاویؔ
عبادتوں کو اب یوں نزرِ آتش کر نہیں سکتا
زاویؔ
Load/Hide Comments