فیصلہ محفوظ ہے ! پروفیسر قیصر عباس

column in urdu, Judgment is reserved

فیصلہ محفوظ ہے ! پروفیسر قیصر عباس
ریاست کے تین اہم ستون ہیں انتظامیہ ٫مقننہ اور عدلیہ جب کہ جدید ریاست میں چوتھے ستون کا بھی اضافہ ہوا ہے جسے میڈیا کا نام دیا جاتا ہے ۔قدیم دور میں بادشاہ وقت تینوں ستونوں کا بلاشرکت غیرے مالک سمجھا جاتا تھا۔بادشاہ وقت کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ قانون کادرجہ رکھتے تھے اس کے کئے گئے فیصلوں پر اپیل یا نظر ثانی کا اختیار بھی بادشاہ کے ہی پاس تھا اور انتظامی امور پر بادشاہ وقت کی مضبوط گرفت ہوتی تھی۔لیکن جوں جوں وقت گزرا بادشاہت کی جگہ جمہوریت نے لی بادشاہ کے اختیارات محدود ہوئے اور اس کی جگہ پارلیمنٹ مضبوط ہوئی۔ یوں وہ اختیارات جو بادشاہ کی شخصیت میں مرکوز تھے وہ اختیارات انتظامیہ ٫ عدلیہ اور مقننہ میں تقسیم ہوئے ۔فرانسسی مفکر مانٹسکیو نے اختیارات کی علحیدگی کا نظریہ پیش کیا جس میں قانون سازی کا اختیار مقننہ کو دیا گیا جبکہ قوانین پر عمل درآمد کروانے کا اختیار انتظامیہ اور قوانین کی تشریح اور سزاؤں کا اختیار عدلیہ کی ذمہ داری قرار پایا آج کے جدید دور میں امریکہ میں اداروں کے درمیان تقسیم اختیارات کے اسی اصول کی پیروی کی جارہی ہے ۔ہمارے ہاں بھی آئین میں ایسا ہی لکھا ہوا ہے لیکن بد قسمتی سے پاکستان کی تاریخ اٹھائیں تو ایک ستون کے ماتھے پر سیاخی کے علاؤہ کچھ نظر نہیں آئے گا ۔اس سیاخی کا آغاز پاکستان بننے کے ساتھ ہی ہو گیا تھا جب تیسرے گورنر جنرل ملک غلام احمد کی خواہش کو مد نظر رکھتے ہوئے پہلی دستور ساز اسمبلی کی تحلیل کو قانونی ثابت کرنے کے لئے اس وقت کی پاکستان کی فیڈرل کورٹ کے چیف جسٹس ملک محمد منیر نے “نظریہ ضرورت”کا بدنما اور داغ دار چوغا پہنایا تھا.بعد میں آنے والے چاروں فوجی ڈکٹیٹروں نے”نظریہ ضرورت “والے بدنما چوغے کو پہن کر اپنے دامن کو آمریت کی دھول سے بچانے کی ناکام کوشش کی اور عدلیہ میں سنہری گوٹھے دار سیاہ عبائیں پہنے ہوئے قاضیوں نے ان آمروں کے ناجائز آئین شکن اقدام کو اپنی قلم کے ذریعے جلا بخشی ۔جمہوری حکومتوں کو گھر بھیجنے کے جتنے ذمہ دار فوجی آمر ہیں اس سے بڑھ کر ایوان عدل میں بیٹھے ہوئے وہ آئین کے محافظ ہیں جن کی ذمہ داری اس نقب زنی میں ملوث افراد کو سزا دینا تھی مگر بدقسمتی سے اس نقب زنی میں یہ محافظ بھی شامل تھے۔ہر دور میں نقب لگتی رہی اور ہر دور میں نقب زنی میں اعلی عدلیہ میں نقب زنی کی سہولت کاری کبھی جسٹس ملک منیر جسٹس٫ انوار الحق٫ جسٹس نسیم حسن شاہ جسٹس٫جسٹس ارشاد حسن اور جسٹس عبد الحمید ڈوگر جیسے لوگوں نے کی ۔اگر کسی منصف نے کسی آمر کے سامنے اپنے ذاتی مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے “حرف انکار “کی جرات بھی کی تو اس کا انجام بھی برا ہواکیونکہ اس کی منصف مزاجی کا لبادہ بھی قدرت نے یوں اتارا کہ عوام جو ان کو مسیحا سمجھ رہے تھے ان کے سامنے ان کی حقیقت آشکار ہوگئی اس کی سب سے بڑی مثال چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری ٫ثاقب نثار اور قاضی فائز عیسیٰ ہیں جن کے فیصلوں نے جمہوریت کو اتنا نقصان پہنچایا جتنا شاید آمروں نے بھی نہیں پہنچایا تھا۔پاکستانی اسٹبلشمنٹ نے جمہوری حکمرانوں کو چاہے٫ وہ بھٹو صاحب ہوں ٫ محترمہ بینظیر بھٹو ہوں ٫میاں محمد نواز شریف ہوں یا پھر عمران خان ان کو نکیل ڈالنے کے لئے عدلیہ میں بیٹھی ہوئی ان “کالی بھیڑوں” کا استعمال کیا جن کا بنیادی کام آئین و قانون کا تحفظ اور ان کی سربلندی تھی۔عدلیہ میں قاضیوں کے روپ دھارے ان صاحبان کو حکمرانوں کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہی پایا گیا۔اب تازہ ترین خبر یہ ہے کہ 190 ملین پاؤنڈ کا “محفوظ فیصلہ “جو کہ سوموار 13جنوری کو سنایا جانا تھا ایک بار پھر موخر کر دیا گیا ہے ۔احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے ریمارکس دیےہیں کہ “بشریٰ بی بی ٫ عمران خان اور ان کی وکلاء کی عدم موجودگی کے باعث” محفوظ فیصلہ”موخر کیا ہے اب یہ محفوظ فیصلہ 17 جنوری بروز جمعہ کو سنایا جائے گا ۔”عزت مآب جج صاحب کو کہنا تھا کہ “صبح آٹھ بجے سے عدالت میں موجود ہوں لیکن نہ ہی ملزم اور نہ ہی ان کے وکلاء عدالت میں پیش ہوئے آج فیصلہ بالکل تیار اور دستخط شدہ میرے پاس ہے چونکہ پہلے ٹریننگ پر تھا اس لئے چھ جنوری کو فیصلے کی تاریخ 13 جنوری تک موخر کی گئی تھی۔”دوسری طرف حکومت اور اپوزیشن کے مزاکرات جاری ہیں حکومت کا موقف ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت اپنے مطالبات لکھ کر دے٫ یاد رہے ان مطالبات میں 9 مئی کی جوڈیشل کمیشن کے ذریعے انکوائری ٫ پی ٹی آئی کے کارکنان کی رہائی کے ساتھ ساتھ بانی پی ٹی آئی عمران خان کی رہائی بھی شامل ہے ۔پی ٹی آئی عمران کی رہائی لکھ کر نہیں دینا چاہتی کیونکہ ان کے مطابق اگر عمران خان کی رہائی کا مطالبہ لکھ کر دیا تو حکومت اس حوالے سے پراپیگنڈہ کرے گی کہ عمران خان “NRO” مانگ رہے ہیں جس کی وجہ سے پی ٹی آئی کی عوامی مقبولیت کا گراف نیچے آسکتا ہے ۔اس لئے مزاکرات کا اونٹ ابھی کسی کروٹ نہیں بیٹھ رہا ۔ایک اور پہلو بھی قابل ذکر ہے کہ اگر عمران خان اسٹبلشمنٹ کی مطالبات کو مان لیتے ہیں جس کا اشارہ علیمہ خان نے بھی دیا ہے کہ ہمیں کہا جارہا ہے کہ” آپ اپنی “زبان بند رکھیں۔” تو شاید یہ” محفوظ فیصلہ” مزید مدت کے لئے محفوظ ہی رہے اور اسے سنانے کی نوبت نہ آئے ۔لیکن جب تک مزید سیاسی منظر نامہ واضح نہیں ہو جاتا فیصلہ محفوظ ہو ہے اور اسے مناسب وقت اور سازگار ماحول میں ہی سنایا جائے گا ۔
column in urdu, Judgment is reserved

پاکستان سمیت دنیا بھر میں گزشتہ روز کیا ہوتا رہا، اہم خبروں کی جھلکیاں

100% LikesVS
0% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں