گریٹر اسرائیل اور انقلاب شام ! پروفیسر قیصر عباس
گریٹر اسرائیل اور انقلاب شام ! پروفیسر قیصر عباس
ملک شام میں کئی روز سے جاری نہ صرف خانہ جنگی کا خاتمہ ہوا بلکہ اسد خاندان کے 54 سالہ عروج کے سورج کو بھی زوال آگیا ۔1970ء میں حافظ الاسد ایک فوجی انقلاب کے بعد اقتدار میں آئے تھے۔حافظ الاسد 2000ء میں وفات پا گئے تو ان کے چھوٹے بیٹے بشار الاسد اقتدار میں آئے کیونکہ بشار الاسد کے بڑے بھائی ایک کار حادثے میں پہلے ہی فوت ہو گئے تھے ۔بشار الاسد بنیادی طور پر ایک آنکھوں کے ڈاکٹر ہیں ۔اپنے چوبیس سالا اقتدار میں ان کی حیثیت ایک ڈکٹیٹر کی سی رہی ہے ۔ان کا انتخاب زیادہ تر ریفرنڈم کے ذریعہ ہی ہوتا رہا تھا جسے عالمی برادری سمیت اپوزیشن جماعتیں مسترد کرتیں رہی تھی ۔ایک آمر جب اقتدار سنبھالتا ہے تو پھر وہ جبر کے ذریعہ ان آوازوں کو دبانے کی کوشش کرتا ہے جن سے اس کے اقتدار کو خطرہ لاحق ہوتا ہے ۔بشار الاسد نے بھی وہی ہربہ استعمال کیا اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو جبر سے دبا دیا ۔لیکن دوسری طرف چونکہ وہ ایک قوم پرست رہنما تھا اس لئے اس نے اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کیا بلکہ اسرائیل کے خلاف ہمیشہ برسرِ پیکار ہی رہا ۔ایران کا اسلحہ لبنان کی مزاحمتی جماعت حزب اللہ اور فلسطینیوں کی جماعت حماس تک پہنچنے کا ذریعہ بھی شام ہی تھا ۔اسرائیل اور شام کے درمیان “گولان”کی پہاڑیاں بھی وجہ تنازعہ بنی ہوئی تھی جس کی وجہ سے شام اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی برقرار تھی ۔شام کا انقلاب اتنا سادہ نہیں جتنا نظر آرہا ہے بلکہ یہ اسی گریٹ گیم کا حصہ ہے جس کے ذریعہ “گریٹر اسرائیل”کا خواب پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ماضی کو حال کے ساتھ جوڑ کر واقعات کو دیکھا جائے تو منظر واضح ہو جائے گا ۔اسرائیل مخالف ان تمام قوتوں کو انجام تک پہنچایا جا رہا ہے جو کہ” گریٹر اسرائیل”کے سامنے رکاوٹ بنی ہوئیں تھی ۔سب سے پہلے حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کو تہران میں نشانہ بنایا گیا اس کے بعد حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ کو راستے سے ہٹایا گیا اور اب بشار الاسد کو ابو محمد الجولانی کے ذریعے سے شام سے فارغ کروا دیا گیا ہے ۔ہمارے معصوم دوست اسے اسلامی انقلاب کا نام دے رہے ہیں اور اسے اسلام کے بیٹوں کی فتح سے قرار دے رہے ہیں لیکن شاید وہ یہ بات بھول رہے ہیں کہ بشار الاسد کے خاتمے کے بعد شام میں صرف ڈکٹیٹرشپ کا خاتمہ نہیں ہوا بلکہ اسرائیل بھی مضبوط ہوا ہے اور نیتن یاہو کا گولان کی پہاڑیوں کو حاصل کرنے کا خواب پورا ہو گیا ہے ۔بلکہ جب بشار الاسد شام سے فرار ہورہا تھا تو کچھ دیر بعد ہی نیتن یاہو نے اپنا وڈیو بیان جاری کیا اور وہ وڈیو بیان گولان کی پہاڑیوں ٫ جسے شام اور اسرائیل کے درمیان” بفر زون” کہتے ہیں ٫پر ریکارڈ کروایا گیا ۔پیغام یہ دینا مقصود تھا کہ گولان کی پہاڑیاں اب ہمارے پاؤں کے نیچے ہیں۔اب تک کی اطلاعات کے مطابق اسرائیلی فورسز نے صرف گولان کی پہاڑیوں تک اکتفا نہیں کیا بلکہ شام کے اندر پیش قدمی کرتے ہوئے مزید جگہوں پر قبضہ کر لیا ہے ۔دوسری طرف انقلابی رہنما احمد شارع المعروف ابو محمد الجولانی نے اپنی جماعت ہیت التحریر شام کے ایک رہنما محمد البشیر کو شام کا عبوری وزیراعظم نامزد کر دیا ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ یہ ابو محمد الجولانی کون ہیں کہاں سے آئے ہیں؟ اور ماضی میں ان کا کیا کردار رہا ہے ؟ تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ یہ صاحب القاعدہ کا حصہ رہے پھر کچھ عرصہ داعش میں بھی رہے اور ابوبکر البغدادی کے دست راست سمجھے جاتے تھے مگر پھر اس نے البغدادی سے اپنا راستہ جدا کر لیا اور اپنی ہی جماعت تشکیل دی امریکہ نے الجولانی کو عالمی دہشت گرد قرار دے کر اس کے سر کی قمیت 10ملین ڈالر رکھی ہوئی تھی ۔تھوڑے عرصے تک یہ امریکہ کی حراست میں بھی رہا ۔قید سے آزادی کے بعد الجولانی نے بشار الاسد حکومت کے خلاف جد وجہد کا آغاز کیا اور پھر کامیابی حاصلِ کی ۔فتح کے بعد ابو محمد الجولانی نے جامع مسجد دمشق میں ایک خطبہ دیا جس میں اس نے اس بات کا عندیہ دیا کہ شام مزید جنگیں نہیں لڑے گا اور ایران کو شام کے معاملات میں داخل اندازی کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔لیکن دوسری طرف اسرائیل فورسز نے شامی بحری بیڑوں کو نشانہ بنایا ہے اور شام پر مسلسل حملے کرکے اس کے انفراسٹرکچر کو تباہ کر دیا ہے۔ الجولانی نے نہ تو اسرائیلی بربریت کی مذمت کی ہے اور نہ ہی ایسے حملوں کو روکنے کی درخواست کی ہے ۔چلیں یہ مان لیتے ہیں کہ انتظامیہ بشار الاسد کی تھی لیکن انفراسٹرکچر جسے تباہ کیا جارہا ہے کیا وہ بھی بشار الاسد کا ہے؟ وہ تو مملکت شام کا ہے ۔اس کا مطلب ہے کہ الجولانی بطور مہرہ استعمال ہوئے ہیں اس کے پیچھے وہی کردار ہیں جو کہ “گریٹر اسرائیل” کے خواب دیکھ رہے ہیں ۔حماس ٫حزب اللہ ٫بشار الاسد کے بعد اگلی باری عراق اور ایران کی آنے والی ہے ۔اگر کوئی شخص اس مغالطے کا شکار ہے کہ بشار الاسد کا تعلق علوی خاندان سے تھا اور وہاں سنی عقیدہ رکھنے والے افراد کو نشانہ بنایا جا رہا تھا اس لئے بشار الاسد کا خاتمہ ضروری تھا تو اب تو بشار الاسد کا خاتمہ ہو چکا اب اسرائیل شام پر بمباری کیوں کر رہا ہے اور وہاں کے لوگوں کو نشانہ کیوں بنا رہا ہے ؟ انقلاب لانے والے اسرائیلی بربریت پر زبان کیوں نہیں کھول رہے ۔تو اس کا جواب صرف یہ ہے کہ یہ سب سکرپٹ میں لکھا ہوا ہے کہ مسلمان کو مسلک اور فرقے کے نام پر لڑاتے چلو اور اپنے مقاصد حاصل کرتے رہو۔
column in urdu
النور پبلک سکول حشوپی شگر میں سالانہ نتائج کا اعلان اور 2025سے مڈل کلاسز کے آغاز کا اعلان