وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ 0

وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ، محمودہ عباس اسوہ گرلز کالج سکردو
اللہ رب العزت نے حضرت آدمؑ کو پیدا فرمایا اور جنت میں رکھا۔ پھر دنیا کی نعمتوں سے نوازا، مگر حضرت آدمؑ نے تنہائی محسوس کی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت حوّا کو پیدا فرمایا۔ اس بات سے واضح ہوتا ہے کہ عورت کے بغیر یہ کائنات نامکمل ہے۔
علامہ اقبالؒ نے فرمایا:
“وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ،
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں”

درحقیقت، عورت ہی کائنات کی زینت، رعنائی اور رنگینی کا سرچشمہ ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اسے بلند مقام عطا فرمایا ہے۔ اسلام سے پہلے عورت کے ساتھ انتہائی برا سلوک روا رکھا جاتا تھا۔ جاہل عرب اپنے ہاتھوں سے اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے۔ یونانی اسے سانپ سے بھی زیادہ خطرناک سمجھتے تھے۔ مگر اسلام نے عورت کو عزت و وقار بخشا اور واضح کر دیا کہ مرد و عورت دونوں تخلیق میں برابر ہیں۔
مرد اور عورت زندگی کی گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ جس طرح ایک پہیے کے بغیر گاڑی نہیں چل سکتی، اسی طرح عورت کے بغیر معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے مرد و عورت دونوں کو مختلف ذمہ داریاں سونپی ہیں، اور ان ذمہ داریوں کو بخوبی نبھانے کے لیے تعلیم بہت ضروری ہے۔
علم انسان کو جینے کا سلیقہ، حق و باطل میں تمیز اور اچھے برے کا شعور عطا کرتا ہے۔ علم ہی کے سبب حضرت آدمؑ کو فرشتوں پر فضیلت دی گئی۔ علم ایک انمول خزانہ ہے جو شخصیت کو نکھارتا ہے۔
اسلامی تاریخ میں تعلیم یافتہ عورتوں نے عظیم مقام حاصل کیا۔ وہ روحانیت، علم، فہم و فراست کے ایسے درجے پر فائز ہوئیں جہاں ہزاروں مرد بھی نہ پہنچ سکے۔ عورت اپنی زندگی میں بیٹی، بہن، بیوی اور ماں کے روپ میں اہم کردار ادا کرتی ہے، اور یہی کردار کسی گھرانے کے لیے روشنی کے مینار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کرداروں میں کامیابی اسی وقت ممکن ہے جب عورت تعلیم یافتہ ہو۔
مغربی مفکرین کا بھی یہی کہنا ہے کہ:
مرد کی تعلیم ایک فرد کی تعلیم ہے، جب کہ عورت کی تعلیم ایک نسل کی تعلیم ہے۔
ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہے۔ بچہ جو کچھ سیکھتا ہے، اس کی پوری زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔
فرانس کے مشہور بادشاہ نیپولین کا قول ہے:
“آپ مجھے تعلیم یافتہ مائیں دے دیجیے، میں آپ کو بہترین قوم دوں گا۔“
صرف ایک تعلیم یافتہ ماں ہی اپنے بچے کی صحیح تربیت کر سکتی ہے۔افسوس کی بات ہے کہ پاکستان میں تعلیمِ نسواں اب بھی ایک متنازع موضوع ہے۔ حکومت کی کوششوں کے باوجود اس راہ میں کئی رکاوٹیں ہیں۔ 2010-2019 کی ایک رپورٹ کے مطابق مردوں کی شرح خواندگی 71 فی صد جب کہ خواتین کی صرف 54 فی صد ہے۔ یہ انتہائی افسوسناک حقیقت ہے۔
خواتین کی تعلیم میں رکاوٹیں کئی ہیں سہولیات کی کمی غربت ،روایتی سوچ عزت و غیرت کے نام پر ظلم یہ سوچ کہ “لڑکی کو صرف گھر کے کاموں تک محدود رکھنا چاہیے”، آج بھی کئی والدین کو اپنی بیٹیوں کو تعلیم دلوانے سے روکتی ہے۔ خصوصاً دیہی علاقوں میں دباؤ اور محدود مواقع کی وجہ سے عورت ذہنی طور پر کمزور اور بےبس ہو چکی ہے۔اگر ہم واقعی سیرتِ نبویؐ پر عمل کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ حضور اکرم ﷺ، جو کائنات کے سردار تھے، اپنی بیٹی حضرت فاطمہؓ کے استقبال کے لیے کھڑے ہو جاتے اور ان کے لیے اپنی چادر بچھا دیتے۔ اس سے عورت کی عظمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ، محمودہ عباس اسوہ گرلز کالج سکردو

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں