مرحوم خواجہ علی کاظم کون تھا ؟, اتنی مختصر زندگی میں اتنی شہرت کیسے حاصل کی، طہ علی تابش بلتستانی
مرحوم خواجہ علی کاظم کی سوانح عمری
مرحوم خواجہ علی کاظم کون تھا ؟, اتنی مختصر زندگی میں اتنی شہرت کیسے حاصل کی، طہ علی تابش بلتستانی
کچھ لوگوں کے نام کے ساتھ مرحوم لکھتے ہوئے دل خون کی آنسو روتا ہے اور ہاتھ لرز جاتا ہے اور عقل اس بات کو تسلیم کرنے میں ہمیشہ سے ناکام رہتا ہے کہ وہ شخص اب ہم میں موجود نہیں ہے ۔۔۔
آج ہم ایک ایسی شخصیت کے بارے میں لکھنے جا رہے ہیں جو اپنی کمسنی میں اتنی شہرت حاصل کی کہ ” جسے حاصل کرنے میں لوگوں کی عمریں لگ جاتی ہیں ۔۔
“نام و نسب
خواجہ کاظم کا پورا نام ” خواجہ علی کاظم ہے ” آپ کا خاندان خواجہ فیملی ہے تو اسی نسبت لوگ پیار سے آپ کو بھی خواجہ بلاتے تھے ۔۔
” آپ کے والد محترم کا نام خوجہ نذیر صاحب ہے ، اور والدہ صاحبہ کا نام بتول ہے ۔۔
آپ کے دو بھائی اور دو بہنیں ہیں اور کل ملا کر آپ کے پانچ بہن بھائی ہیں اور غالباً آپ اپنے بہن بھائیوں میں سکینڈ لاسٹ میں آتا تھا ،اپ اپنے بھائی بہنوں میں سے زیادہ تر آپ کے اپنے مرحوم بھائی ندیم کے ساتھ زیادہ اُٹھانا بیٹھنا کرتا تھا اور آپ کا اپنے مرحوم بھائی سے ہمیشہ دوستانہ مراسم رہیں ۔
`پہچان و علاقہ`
آپ کا تعلق بلتستان کے نواحی گاؤں شگری خود ” رگیایل ” یا ” رگیول” کے ایک چھوٹے سے گاؤں ” چھنی رگیول سے ہےاور وہی اپنی ساری زندگی مقیم رہے ”
`ابتدائی تعلیم ۔
آپ بچپن سے ہی ایک شاطر طالب علم ہوا کرتا تھا ، اردو تعلیم حاصل کرنے سے پہلے آپ نے قرآن ، تعلمیات اسلامی کو اہمیت دی اور صرف چار سال کی عمر میں چَھنی رگیول کی ایک مدرسے میں داخلہ لیا اور قرآن اور تعلیمات اسلامی کو باقاعدہ شروع کیا ۔۔۔
اور پانچ سال کی عمر میں آپ نے چھنی رگیول کی ایک کمیونٹی اسکول میں نرسری میں داخلہ لیا اور کلاس تھری تک اسی اسکول میں اپنی تعلیم جاری رکھا بعد از کلاس چہارم اور پنجم کے لیے چھنی رگیول کی گورنمنٹ مڈل اسکول میں داخلہ لیا اور اچھے نمبروں سے پاس کیں۔۔
اس کے بعد منقبت نعتیہ مقابلوں میں عالمی شہرت حاصل کرنے کے بعد کلاس ہشتم میں اسکردو ایجوکیٹر اسکول کی طرف سے فل فنڈڈ اسکالرشپ کی آفر ہوئی اور جماعت ہشتم میں اپنی تعلیم جاری کیے اور اسی سال ( 2025) میں کلاس ششم ( 6th ) میں اچھی نمبروں سے پاس حاصل کرنے کے بعد کلاس ہشتم ( 7th ) میں پہنچ گیا تھا ۔۔۔۔
`مدح خوانی
آپ کو بچپن سے ہی قصیدے ، منقبت اور نعمت پڑھنے کا شوق تھا ۔ عموماً چھن رگیول کے مدرسوں کے نعتیہ اور منقبت مقابلوں میں ہمیشہ حصہ لیتا تھا ۔۔۔
اس کے علاؤہ اسکول کے بزم ادب پروگراموں میں ہمیشہ پیش پیش رہے۔
اہلیان رگیول عموماً اپنی تمام چھوٹے بڑے جشن ، بلخصوص عید مباہلہ میں آپ کو مولا کی مدح خوانی کرنے کا موقع دیتا تھا اور آپ کی دل سوز آواز ہمیشہ سے سننے والوں کے دل جیت لیتے تھے۔
آپ نے اپنا پہلا قصیدہ بلتی میں کھرمنگ کے ایک محفل میں پڑھا اور بہت مقبول ہوئے، عمائدین کھرمنگ نے کافی حوصلہ افزائی کیں، اور یوں دھیرے دھیرے آپ کی آواز پورے بلتستان میں گھونجنے لگی۔
اس کے بعد سن 2020 میں پاکستان ٹیلی ویژن ( PTV ) کی طرف سے آپ کو خاص آفر آئی اور آپ نے پہلی دفعہ عالمی سطح پر منقبت پڑھنا شروع کیا ۔۔۔
`عالمی شہرت۔
آپ چونکہ آہستہ آہستہ سب سننے والوں کے دل جیتنے لگے تھے تو دستہ حسینہ رگیول کے عمائدین، علماء کرام اور نواحہ خوانوں نے آپ کو مجلس عزا میں نوحہ پڑھنے کی لئے دعوت دی ۔۔۔ اور یہ ایک سعادت تھی تو آپ نے سر آنکھوں سے تسلیم کیا اور 2021 میں دستہ حسینہ رگیول کے نوحہ خوانوں میں باقاعدہ شامل ہوئے ۔۔۔
اور دستہ حسینہ رگیول کے مقبول نوحہ
” سر جھکاتے بین کرتی ، قیدیوں میں بے ردا سہمی کھڑی ،
کیا یہی وہ قافلہ ، سالار زینب س ع تو نہیں ”
نے اتنی مقبول حاصل کی کہ ” راتوں رات آپ کا نام اور نوحہ پورے بلتستان کے بچے ، بوڑھے اور نوجوانوں کی زبانوں کی زینت بنی اور سوشل میڈیا پر آپ کے نوحے کے کلپ ہر کوئی پسند کرنے لگے ۔
پھر اہلیان بلتستان کی محبت اور آپ کی ترنم آواز کی وجہ سے آپ کو وادی اسکردو کے لوگ اپنے تمام محفلوں میں مدعو کرنے لگے۔
استاد اور تربیت`
آپ کی تربیت اور آواز کی اتار چڑھاؤ کو نکھارنے میں آپ کا پسندیدہ استاد ” مشہور و معروف ذاکر اہلبیت استاد *”جاوید میر صاحب “* نزیر ناز صاحب اور دستہ حسینہ کے سپہ سالار چیرمین استاد فرمان انجم صاحب نے خاص توجہ دی ” جو ہر جمعرات کے دن آپ کو منقبت ، نعت ، نوحہ اور قصیدے کی مشق کرواتے اور آواز کی اتار چڑھاؤ اور آواز کی لہروں میں رد و بدل کا خاص خیال رکھتے اور تقریباً تین سال تک آپ کو اپنے ہمراہ رکھ کر محفلوں میں پڑھواتے اور جہاں غلطی ہو جاتی محفلوں کے بعد اس کی خاص کر اصلاح کرتے۔۔۔۔۔۔
ضلعی سطح پر شہرت`
آپ نے اسکردو کے تمام نواحی علاقوں کے علاؤہ ، ضلع کھرمنگ ، گانچھے ، شگر ، ، گلگت ، استور ، اور نگر کے محفلوں میں شرکت کرتے تھے اور مومنوں کے دل جیت لیتے تھے۔۔۔
ملکی محفلوں میں شرکت`
2020 میں جب پہلی دفعہ آپ پاکستان ٹیلی ویژن میں نعت پڑھنے کے بعد آپ ملتان منقبت پڑھنے کے لیے بلایا اور اس کے علاؤہ پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں آپ منقبت پرھنے گئے جس میں خاص کر اسلام آباد ، ملتان ، روالپنڈی ، کراچی ( سندھ ) اور دیگر چھوٹے بڑے اضلاع شامل ہیں۔۔۔۔۔۔
بین الاقوامی سطح پر منقبت خوانی`
آپ پاکستان کے علاؤہ اپنی قلیل عمر میں ملک تنزانیہ ، عراق ، ایران ، شام ، کوفہ، کربلا اور نجف تشریف لے گئے اور وہاں مولا کی ثنا خوانی کرتے رہے اور ساتھ میں مقدس مقامات کی زیارت کر کے شعبان المعظم کو پاکستان دوبارہ تشریف لے آئے ۔۔۔۔۔۔
`جام شہادت`
آپ ننھا عاشق اہلبیت صرف پندرہ سال کی عمر میں پندرہ شعبان المعظم صوبہ سندھ کو شبِ برات کی محفل سے واپس آتے ہوئے ضلع جامشورو کے مقام پر 14 فروری 2025 کو آپ کے ہر دل عزیز سگا بھائی، خواجہ ندیم مرحوم اور مشہور معروف منقبت خواں سید آغا جان رضوی اور مرحوم زین ترابی سمیت ایک خوفناک کار ایکسڈنٹ میں شہید ہوگئے اور پورے بلتستان کے ذہنوں سے ایک نا مٹنے والی نشانیاں چھوڑ کر اس فانی دنیا کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دیئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلتستان کی تاریخ میں ایسا جنازہ آج تک نہیں دیکھا گیا جس میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی اور آپ مرحوم کو اپنی نواحی گاؤں چھن رگیول امام بارگاہ کے سامنے اپنے سگا بھائی خواجہ ندیم کے ہمراہ دفن کر دیے گئے اور دنیا کو ایک پیغام دے کر چلے گئے کہ ” اہلبیت سے محبت کرنے والے کبھی نہیں مرتے ” آج لاکھوں لوگ آپ کو شدت سے یاد کرتے ہیں اور اپنی دلوں ہمیشہ آپ کو زندہ رکھے ہوئے ہیں
دعا گو ہے خدا تمام شہدہ کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائیں ۔
آمین
تحریر نگار طہٰ علی تابشٓ بلتستانی
Column in Urdu, biography of khawaja Kazim ali