سب ڈویژن روندو کی خوبصورتی اور حسِین قدرتی نظارے. محمد شفیق سوتو
سب ڈویژن روندو خوبصورتی اور حسِین قدرتی نظاروں سے بھرا ایک علاقے ہے جہاں ہر سال ہزاروں سیاح آتے ہیں اور قدرت کے مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔
قراقرم اور ہمالیہ کے برف پوش پہاڑی سلسلے یہاں کی خوبصورتی اور قدرتی حُسن میں اضافہ کرتے ہیں۔
دنیا کے اس بلند و بالا خطے میں آنے والے سیاح ہمالیہ اور قراقرم کی برف پوش چوٹیوں، نایاب مارخوروں، دو پہاڑی سلسلوں کے درمیان بہنے والے دریائے سندھ کا دلکش نظارہ اور صوفیانہ چٹانوں کی تشکیل سے مسحور ہوتے ہیں۔ جیسے یہ وادی اپنی دلکش شان و شوکت کے لیے مشہور ہے ویسے ہی یہاں کے لوگ گرم دلی اور اپنی مہمان نوازی کے لیے جانے جاتے ہیں۔ اس علاقے کی 75 فیصد آبادی بلتی بولنے والی ہے جبکہ باقی 25 فیصد لوگوں کی مادری زبان شینا ہے۔گنجی روندو یہاں کی سب سے خوبصورت وادیوں میں سے ایک ہے۔
یہاں مقیم تمام لوگ شینا بولنے والے ہیں۔ روندو اپنی ثقافت اور کئی تاریخی مقامات کیلئے مشہور ہے۔
لیکن گاؤں گنجی کی تاریخ خاص طور پر قابل ذکر ہے۔
اس گاؤں میں 6 مختلف قبائل سوتے، بوٹے،شوٹئے، گیسیجے، تینے اور ٹوکورے آباد ہیں۔
یہ تمام قبائل کئی صدیوں سے اس گاؤں میں ہم آہنگی کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ آباؤ اجداد کے مطابق اس گاؤں میں چار بڑے شکار (قلعے) واقع تھے۔
قلعوں میں سے ایک قلعہ سوتی فیملی کی ملکیت تھا جو گاؤں کے مرکز کھیر کوٹ (گنجی پائن) میں واقع تھا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ قلعہ ایک چٹان (جس کی اونچائی 40 میٹر تھی ) کی چوٹی پر بنایا گیا تھا۔ یہ اس گاؤں میں تعمیر ہونے والا اب تک کا سب سے اونچا قلعہ بھی سمجھا جاتا ہے۔دوسرا قلعہ شوٹی فیملی کی ملکیت تھا جو سوتی فیملی کے قلعے کے قریب واقع تھا اور تیسرا قلعہ گسیجی فیملی کی ملکیت تھا اور آخری بوٹی شکار (بوٹو قلعہ) ہے۔
آباؤ اجداد کی اطلاعات کے مطابق سوتو قلعہ اور شوٹی شکار چند سال قبل حادثاتی طور پر آگ لگنے سے تباہ ہو گئے تھے اور اب ان قلعوں کا کوئی نشان باقی نہیں بچا ہے۔ تقریباً 400 سال پہلے، یہ قلعے سکھ حملہ آوروں کے خلاف دفاع کے مقاصد کیلئے کمانڈ اور کنٹرول مرکز کے طور پر استعمال کئے جاتے تھے۔
بوٹو قلعہ (بوٹی شکار) گنجی بالا، جو گاؤں کے اوپری حصے میں واقع ہے میں موجود ہے۔ ملکی گہ نام کی ایک ندی گنجی بالا کو باقی گاؤں سے الگ کرتی ہے۔ گنجی بالا اور گنجی کے دوسرے حصے لکڑی کے پل کے ذریعے جڑے ہوئے ہیں۔
گنجی کے چار بڑے قلعوں میں سے، بوٹو قلعہ (بوٹی شکار) آخری اور واحد قلعہ ہے جو اپنی تعمیر کے بعد خوبصورتی سے اب تک قائم ہے۔ اسے کشمیری کاریگروں نے تقریباً 400 سال سے بھی زیادہ عرصہ قبل تعمیر کیا تھا، تاہم تعمیر کے روایتی طریقوں کو اچھی طرح اور بہترین طریقے سے استعمال کیا گیا تھا اور اس کی انجینئرنگ بے مثال تھی۔
قلعے کے دروازوں اور کھڑکیوں کو مہارت سے بنایا گیا ہے۔
گاؤں کے تمام لوگوں نے قلعے کی تعمیر میں مدد اور تعاون کیا۔
اس کی تعمیر کے مقاصد میں سے ایک دفاع تھا۔ اس وقت گاؤں باہر سے حملوں کی زد میں تھا اور یہ صرف ایک قلعہ تھا جہاں سے لوگ حملہ آوروں کی نقل و حرکت پر نظر رکھ سکتے تھے۔ یہ حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کافی مضبوط تھا اور گاؤں کے تمام باشندوں کو پناہ دینے کی صلاحیت رکھتا تھا۔
اس نے حملہ آوروں کے بہت سے حملوں کا مقابلہ کیا اور اب بھی مضبوط اور زبردست ہے، اس کے علاوہ اس نے زلزلے کے حالیہ جھٹکوں کو بھی برداشت کیا جس سے سیمنٹ کے گھر بھی ٹوٹ گئے لیکن قلعہ متاثر نہیں ہوا۔
گاؤں کے لوگوں میں ایک افسانہ مشہور ہے کہ حملے کے وقت لوگ قلعے میں پناہ اور حفاظت کے لیے موجود تھے لیکن حملہ آور قلعہ کی دوسری منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے اور قابو پانے کے قریب تھے۔ حملہ آوروں میں سے بارہ حملہ آور قطار میں ایک سیڑھی چڑھ رہے تھے اسی دوران تیسری منزل سے ایک خاتون نے ایک ہی حملے سے تمام بارہ کو ڈھیر کردیا اور وہ دوبارہ کبھی قابو نہ کر سکے۔
بتایا جاتا ہے کہ تعمیر کے وقت قلعے کے چاروں کونے سونے کے ٹکڑوں سے بھرے گئے تھے۔ یہ ایک قابل ذکر قلعہ ہے جو ابھی تک دلکش اور مضبوط ہے۔ بوٹو خاندان اس وقت قدیم تاریخ اور شناخت کو برقرار رکھنے کے لیے سخت محنت کر رہا ہے اور خود اس کو برقرار رکھنے کیلئے سرگرم ہے ۔
جو لوگ التت قلعہ ہنزہ گئے ہیں ان کا دعویٰ ہے کہ قلعہ بوٹو کا فن تعمیر التیت ہنزہ سے ملتا جلتا ہے۔
یہ قلعہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنتا جا رہا ہے لیکن اس کی تشہیر کرنے کی سخت ضرورت ہے کیونکہ بلتستان سے باہر کے لوگ اس سے ناواقف ہیں۔
مزید برآں حکومت کو قلعہ کی دیکھ بھال اور مزید سجاوٹ میں مقامی لوگوں کی مدد کرنے کی ضرورت ہے اور عوام کو بھی اپنے اس تاریخی یادگار کی مرمت اور سجاوٹ کیلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے۔
محمد شفیق سوتو