جامعات کے اساتذہ اور ترقی کے بند دروازے- ڈاکٹر نذیر بیسپا
پاکستان کی تمام سرکاری وزارتوں، محکموں اور خودمختار اداروں میں ایک بار کسی ملازم کی بذریعہ سلیکشن بورڈ تقرری کے بعد اس کو دوبارہ سلیکشن بورڈ کا سامنا کرنا نہیں پڑتا بلکہ ایک عہدے پر رہتے ہوئے مقررہ مدت کی تکمیل کے بعد محکمہ جاتی ترقیاتی کمیٹی (Departmental Promotion Committee. D.P.C) کی سفارش پر اس ملازم کو اگلے گریڈ میں ترقی دی جاتی ہے۔ لیکن ایچ ای سی کے قیام کے بعد نافذ شدہ نظام کے تحت
پاکستان میں عام طور پر ۱۸ سال کی تعلیمی قابلیت کے ساتھ ایک فرد ۱۸ گریڈ کی لیکچرار کی پوسٹ پر بھرتی ہوتا ہے۔ پھر پی ایچ ڈی کی تکمیل یا ۶ سال کی سروس مکمل ہونے پر وہ اگلے گریڈ میں جانے کا حقدار ہوتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کو محکمانہ سلیکشن بورڈ کے ذریعے اگلے عہدے یا گریڈ میں ترقی نہیں دی جاتی بلکہ یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے خالی اسامی کے اشتہار چھپنے کا انتظار کر پڑتا ہے اور یہ اشتہار کبھی وقت پر نہیں چھپتا بلکہ ایک لیکچرار کو ۱۰ سے ۱۲ سال اسی پوسٹ پر کام کرنا پڑتا ہے اور اگر بالفرض اشتہار آ بھی جائے تو سکروٹنی اور سلیکشن بورڈ کے انعقاد میں مزید ۳ سے ۴ سال ضایع ہوجاتے ہیں۔ یہ باقاعدہ ریکارڈ پر ہے کہ جامعہ کراچی میں ایک اشتہار کے تحت ہونے والے سلیکشن بورڈ میں ۸ سال بھی لگے ہیں۔ خدا خدا کر کے اگر سلیکشن بورڈ منعقد ہوجائے اور بورڈ ترقی کی سفارش کرے تو ایک لیکچرار ۱۰ سے ۱۴ کے دوران لیکچرار سے ۱۹ گریڈ کی اسسٹنٹ پروفیسر کی پوسٹ پر ترقی پانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔
اسی طرح اسسٹنٹ پروفیسر سے ایسوسی ایٹ پروفیسر گریڈ ۲۰ میں ترقی پانے کے لیے اس سے زیادہ پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں کیونکہ ایسوسی ایٹ پروفیسر بننے کے لیے پی ایچ ڈی اور دس سالہ تدریسی تجربے کے ساتھ کم از کم ۱۰ تحقیقی مقالے ایچ ای سی کے مجوزہ معیار کے تحقیقی مجلات میں چھپوانے ہوتے ہیں۔ سالوں انتظار کے بعد مقالات کی تعداد پوری ہونے پر پھر اسی طرح تمام پروسیس سے گزرنا پڑتا ہے یعنی اشتہار چھپنے کا انتظار کیا جائے جو کبھی وقت پر نہیں چھپتا۔ بڑی مشکل سے اشتہار آ بھی جائے تو سکروٹنی کے عمل میں مزید ۲ سے ۳ سال ضایع ہو جاتے ہیں۔ اگر سکروٹنی کے عمل میں اہل قرار پائے تو تحقیقی مقالات کو مزید جانچ کے لیے تین غیر ملکی ماہرین کو بھیجے جانے اور ان کی طرف سے رپورٹ واپس موصول ہونے تک مزید ایک دو سال انتظار کا عذاب جھیلنا پڑتا ہے۔ خوش قسمتی سے دو مثبت رپورٹس آجائیں تو دوبارہ سے سلیکشن بورڈ کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ان تمام مراحل میں کئی کئی سال لگ جاتے ہیں اور ایک یونیورسٹی ٹیچر اسسٹنٹ پروفیسر کی پوسٹ پر یا ریٹائرڈ ہوجاتے ہیں یا ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں۔
اگر بنده بہت خوش قسمت ثابت ہو تو ۲۰ سے ۲۵ سال کی سروس کے بعد گریڈ ۲۰ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر کے عہدے پر ترقی پانے میں کامیاب ہوجاتا ہے تب تک وہ استاد اپنی ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ جاتا ہے۔
موجودہ نظام میں پروفیسر گریڈ ۲۱ کے عہدے تک بہت ہی کم افراد کو رسائی حاصل ہوتی ہے کیوں کہ پروفیسر بننے کے لیے بھی دوبارہ مذکورہ بالا تمام مراحل سے گزرنا پڑتا ہے جو ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر کے امیدوار کے لیے مقرر ہیں۔
یہ کہنا بجا ہے کہ یونیورسٹی میں پروفیسر کے عہدے تک پہنچنے کے لیے حضرت نوح کی عمر اور حضرت ایوب کا صبر درکار ہے لہذا اس ظالمانہ اور پیچیدہ نظام کا متبادل نظام لانا نہایت ضروری ہے۔
جامعات کے بھی اساتذہ دیگر تمام سرکاری محکموں کی طرح سرکاری ملازم ہیں لہذا ان کو بھی دیگر اداروں کے ملازمین و افسران کی طرح ڈی پی سی کے تحت کم از کم اگلے گریڈ میں ترقی دے دینا چاہئے تاکہ ایک استاد کم از کم مالی لحاظ سے پریشانیوں کا شکار نہ ہو اور وہ بھی سول ملازمین کے بنیادی حقوق سے بہرہ مند ہوجائے البتہ تدریسی عہدے دئے جانے کے حوالے سے موجودہ یا کوئی اور قابل قبول نظام وضع کیا جائے۔