تاریخ گلگت بلتستان 21 دسمبر ۔جشن مے فنگ
تاریخ گلگت بلتستان 21 دسمبر ۔جشن مے فنگ
21 دسمبر ۔جشن مے فنگ
یوں تو سرزمین بلتستان تاریخی روایتوں سے بھری پڑی ہے مگر آج کا دن جشن مے فنگ کے طور پر بلتستان بھر میں منایا جاتا ہے ۔اس تہوار کو منانے کی کٸی پہلو ہیں ۔ایک تو دسمبر کے آج کا دن سال کا سب سے چھوٹا دن تصور کیا جاتا ہے اور آج کی رات سال کی سب سے لمبی رات تصور کی جاتی ہے ۔اس اعتبار سے موسمیاتی تبدیلی کا آغاز ہوتا ہے ۔اس دن یہاں کے باسی اپنے گھروں میں خصوصی انتظامات کرتے ہیں ۔اور کہیں کہیں دعوتوں کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے ۔گھروں میں مخصوص پکوان تیار کیا جاتا ہے ۔لوگ اس دعوت کے اہتمام کو اس تصور سے بھی جوڑتے ہیں کہ بلاٸیں دور ہوجاتی ہے ۔یہ سال کا سب سے چھوٹا دن ہے ۔لمبی رات ہے ۔لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں رات کو بیٹھک لگاتے ہیں اور قصے کہانیاں سنتے ہیں ۔از سر شام لوگ کپڑوں کا لنڈا بنا کر آگ لگاتے ہیں اور دریا کے کنارے اپنے سر کے اوپر سے گھماتے ہوۓ پھینک دیتے ہیں ۔بلتی ادب میں مے فنگ سے مراد آگ کو فور پھینکنا ہے ۔بعض مقامی لوگوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ وادی بلتستان میں ہندووںکی راجگیری کے دوران شگر میں ایک ظالم حلمران ۔ابداخن ۔کے نام سے بے حد مشہور تھا ۔وہ آدم خور تھا ۔اور شیرخوار بچوں کو کھالیتا تھا ۔اس میں کتنی حقیقت ہے اس سے تو صرف قدرت ہی بتا سکتی ہے ۔اور کہتے ہیں کہ ان دنوں دسمبر کا یہ دن برفباری کے اعتبار سے عروج پر ہوتا تھا ۔اور لوگوں کو کھانے ۔پینے کی اشیا کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑتا تھا ۔پھر عین آج کے اس د ایک نوجوان نے اپنے گھر ابداغن کو دعوت دی اور اسے دھوکے میں رکھ کر تپتی ہوٸی آگ میں جلایا اور وہ تڑپ تڑپ کر مرگیا ۔اور یوں یہ سر زمین اس ظالم حکمران سے نجات پاگٸی ۔طعض مقامی لوگوں کی راۓ بھی یہی ہے کہ لوگ اس خوشی میں یہ مقامی تہوار اس غرض سے جوش و خروش کے ساتھ مناتے ہیں ۔بعض جگہوں پر اس تہوار کو منانے کا مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر اس دن تک برفباری نہ ہوجاۓ تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ سردی کا موسم نہایت قلیل ہوگا اور انھیں موسم سرما میں مشکلات کا ساما کرنا نھیں پڑے گا ۔ترقی کے دور میں قدم رکھتے رکھتے قریبأ اب یہ تہوار اپنی اہمیت کھوتی جارہی ہے ۔نوجوانوں میں اب اتنی مقبولیت اس تہوار کی ہمیں نظر نھیں آتی ہے ۔بعض حلقہ احباب آج کے اس دن اپنے چوپاٸوں کے خوراک میں نمک کا استعمال بڑھا دیتے ہیں ۔ان کا خیال ہے کہ مے فنگ کے اس دن ایسا کرنے سے ان کے مال مویشی کی صحت میں نمایاں تبدلی آتی ہے ۔اس تہوار کا تحقیق کے مطابق اگر چہ دین اسلام سے کوٸی ربط نظر نھیں آتی ۔شاٸد اسی سبب اب یہ اپنی اہمیت تیزی سے کھوتی چلی جارہی ہے ۔لیکن ہمیں چاہیۓ کہ اس تہوار کو زندہ رکھے کیونکہ یہ ہماری تاریخ کا حصہ ہے ۔اگر چہ یہ ہندووں کے دور کی تہوار ہی کیوں نہ ہو ۔جو قومیں اپنی روایتی تہواریں اور تاریخ بھولتی جاتی ہیں اس دنیا میں انکا کوٸی مقام نھیں ہوتا کیونکہ تاریخ ہی کسی قوم و زندہ رکھتی ہے ۔