تاریخ گلگت بلتستان. مراد خان اماچہ کی مذہبی ادبی اور فنی خدمات . جمیل شیخ
تاریخ گلگت بلتستان مراد خان اماچہ کی مذہبی ادبی اور فنی خدمات
تحریر : جمیل شیخ
مولانا امین احسن اصلاحی فرماتے ہیں” ہم صرف سروں کو گننے کے عادی ہیں حالانکہ زندگی سروں سے نہیں بلکہ دماغوں اور دلوں سے ہے”۔ میری زندگی کی کم و بیش ٣۵ بہاریں لوگوں میں گزری اور ہر انسان کو زمانے کا شکوہ کرتے ہوئے سنا جب کہ میں نے محسوس کیا کہ زمانہ برق رفتاری سے ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ مگر آدم زاد قحط الرجال کے عذاب میں مبتلا ہے۔ ایسے میں اگر صاحبان بصیرت تاریخ بشریت کا بغور مطالعہ کرلیں تو چشم حقیقت بین کے سامنے چند ایسی عظیم ہستیوں کا نام آتا ہے جن کے جلووں کی ضوفشانی چشم بینا کو خیرہ کر دیتی ہے، جن کے قلم کی روشنائی بھٹکے ہوؤں کو راہ دکھاتی ہے۔ جن کے افکار ہمارے فکر کی پروازوں کو ہوا دیتی ہے، اور جن کی لازوال قیادت بنی نوع انسان کے لیے منزل تک رسائی حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے قوموں کے عروج و زوال کی داستانیں یہی عظیم لوگ رقم کرتے ہیں مگر بدقسمتی سے ایسے جامع الصفات اور اونچے درجے کے اشخاص اولاً پیدا ہی نہیں ہوتے اور اگر ایک آدھ پیدا ہو بھی جائے تو انکی زندگی میں ہم انہیں پہچاننے سے قاصر رہتے ہیں۔
وکٹرہیو گو کا کہنا ہے “زندگی کتنی ہی شاندار اور عظیم الشان ہو لیکن تاریخ اپنے فیصلے کے لیے ہمیشہ موت کا انتظار کرتی ہے” ہاں یہ قول اپنی جگہ معنی اور درست مفاہیم سے بھرپور ہیں مگر جب کسی عظیم انسان کا خاکی بدن مٹی تلے دفن ہو جاتا ہے تو اس کا کردار لوگوں میں زندہ ہو جاتا ہے خاص کر شعراء و ادباء اور شاعر و ادیب بھی راجہ مراد خان اماچہ جیسا ہو اور شاعری بھی ان کی جیسی ہو تو نسل در نسل ان کی شاعری منتقل ہوتی رہے گی، لوگوں میں پذیرائی ملتی رہے گی اور مجالس و محافل کی زینت بنتی رہے گی۔ یہ ہماری بد نصیبی ہے کہ ہم ان کے دیدار سے مستفید نہ ہوسکی مگر ان کی حالات زندگی اور شاعری کے مطالعے سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں وہ دنیا داروں کی بیس میں مرد قلندر دیوانوں کے رنگ میں داناۓ راز تھے ۔ ان کے افکار و تخیلات ملکوت کی بلندیوں پر پرواز کرتے تھے۔ سالوں پہلے ان کی نظر ماضی، حال اور مستقبل پر یکساں تھے۔ وہ جانتے تھے کہ جب مادیت پرستی عروج پر پہنچے گی تو اسلامی محافل میں حمد، نعت اور چاردہ معصومین کے قصائد الگ الگ کرکے سننے کا لوگوں میں حوصلہ نہیں ہوگا تو “بعد توحید” کی شکل میں وہ بیش بہا قصیدہ عطا کیا جس کو پڑھنے کے بعد شاید اس محفل میں رسمی دعائے خیر کی بھی ضرورت باقی نہیں رہتی کیونکہ یہ قصیدہ رب ذوالجلال کے بابرکت اسم سے شروع ہوتا ہے آئمہ طاہرین کی مدح سرائی کے بعد محمدؐ و آل محمد پر درود کے ساتھ ختم ہوتا ہے اور بلتستان میں اسلامی محافل کا یہی قدیمی اور رائج الوقت طریقہ ہے ۔ آپ کی شاعری تمام تر شعری محاسن کے حوالے سے مستحسن ہونے کے ساتھ ساتھ سلاست اور روانی میں بھی بے مثال ہے۔ آپ کے اشعار میں ایک منفرد خوبی جو دوسرے کسی شاعر کے کلام میں نظر نہیں آتا ردیف اور قوافی کے قید و بند کے باوجود ایک دوسرے مصرعے سے اس طرح مربوط ہوتے جاتے ہیں جیسے کوئی فصیح و بلیغ انسان ایک مخصوص موضوع پر گفتگو کر رہا ہو۔ مولا علیؑ کی شان میں مدح سرائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں
ینگ کھو لا شاہ لا فتیٰ سا زیرید
ہل اتیٰء خنمی نیما سا زیرید
انمائی تھنی ہرتہ پا سا زیرید
ژھنگمہ قرآن پو کھوے ثنا سا زیرید
خانہ کعبہ کھوے سکیسا سا زیرید
دریونگ نا میونگ چکتوی مقتدا سا زیرید
شیعہ چکتو سی رہنما سا زیرید ۔
موسٰیونی سی سیلیا سا زیرید ۔
عیسیونی سی ایلیا سا زیرید
کھوانگ نصریونی سی خدا سا زیرید
نا جناب علیاؑ خدا سا می زیر
نا خدا نا علی جدا سا می زیر
نا سی گا لدنفو چکتوی کھوانگ رگو شیسید
قدرتی شیسی نانی کھنگ رگو شیسید
میری نظر میں مراد خان کی وجہ شہرت کا سنگ بنیاد ان کا یہی انداز بیاں ہے اس بنا پر انہوں نے بلتی قصیدہ گو شعرا کے صف اول میں جگہ پائی وہ شاعری میں فن عروض کے اعلی پائے کے استاد تھے آپ درگاہ باب الحوائج میں کچھ یوں عرض گزار ہوتے ہیں کہ سننے والوں کے آنسو پلکوں کا حلقہ توڑ کر رخساروں کی زینت بننے لگتی ہے۔
مظلوم کاکا یانگ ژالے نوین شخفو نا نزگق
خنم ژوخ دے رکوبونگ ہر تیکھہ نا سا غزمفو نا نزگق
معصوم سکینہ سی ببا ژلفو نا نزگق
کھیونگ زیرے زیرے ببا نوسے نوسے بگیل فو نا نزگق
یا حضرت عباس علی یانی مدد بیوس
مخصوص شہید کنی فیلا شزدے نظر بیوس
اس کی آزمودہ تاثیر کے پیش نظر اس قصیدے کو بلتی دعائے توسل کا نام دے دیں تو بے جا نہ ہوگا۔ مراد خان اماچہ مرثیہ اور قصیدہ دونوں کے استاد کامل تھے۔ انہوں نے مخمس، رباعیات اور مثنوی بھی لکھی۔ مراد خان ایک بہت بڑے ضاع تھے وہ الفاظ کی نشست اور مناسب استعمال سے کماحقہ واقف تھے۔ الفاظ کا بر محل استعمال بلندی تخیل اور تکمیل مضامین میں آپ کا کوئی ثانی بلتی ادب کی تاریخ میں نظر نہیں آتا
یہ بات سچ ہے کہ اگر سچائی سچے کی زبان سے نکلے تو وہ اپنی حمایت کے لئے کسی منطق کے محتاج نہیں۔ بقول ڈاکٹر حسن خان اماچہ “مراد بلتی مثنوی کا بانی ہے۔ مراد میں اسلامی حکایات اور ائمہ طاہرین کے معجزوں کے بیان کے لیے بلتی زبان میں مثنوی کی ابتدا کی ” ۔ جب کہ شعرائے اردو میں بھی یہ صنفِ سخن بہت ہی مقبول رہی ہے۔ اس میں بحر اور قوائد نظم کی پابندی بھی کی جاتی ہے اور ساتھ ساتھ پورے ایک واقعے کی مکمل تصویر کشی بھی کی جاتی ہے۔ مراد خان اماچہ نے مذہبی واقعات اور آئمہ طاہرین کی معجزات کو اشعار کی خوبصورت لڑی میں پرو کر مثنوی کی شکل میں پیش کر کے
بلتی شاعری کو ایک نئی جہد عطا کی جو اب تک اسلامی محافل میں عقیدت واحترام کے ساتھ پڑھی اور سنی جاتی ہے۔
ڈاکٹر حسن خان اماچہ طرف سے عطا کردہ کتابچے کی وساطت سے مراد خان کے مراثی بھی بغور پڑھنے کا شرف حاصل ہوا لیکن مضمون کی طوالت کے خوف سے صرف اتنا کہنے پر اکتفا کروں گا کہ انہوں نے مراثی میں غم کی شدت کا مکمل نقشہ کھینچا ہے اور صاحب غم کا انداز انہی کی زبان حال میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ سننے والوں کے قلب پر ایک خاص اثر کرتے ہیں ۔ آخر میں اس تحریر کے دو نکات کی وضاحت ضروری سمجھتے ہوئے
کہنا چاہونگا کی مقالے میں اس بات کی شکایت کا موقع ہو سکتا ہے کہ تمثیلی اقتباسات نہیں دیے گئے ۔جس کی بنیادی وجہ یہ بنی کی چند ایک کے علاوہ ہمارے ماضی و حال کے ادبی شخصیات نے کسی شاعر کی مذہبی ادبی اور فنی خدمات کو اجاگر کرنے کے لیے منظوم ادب کو ترجیح دیتے ہوئے نثری ادب کی طرف کم توجہ دی ہے۔ دوسری بات مقالے میں بلتی تمثیلی اشعار کا اردو ترجمہ کرنے سے اس خدشے کے پیش نظر گریز کیا گیا کہ میری کم مائیگی اور نافہمی مراد خان کی شاعری پر اثرانداز نہ ہو۔
مراد خان اماچہ ہر حوالے سے ایک خوش نصیب انسان تھا شکر کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے عطا کردہ صلاحیتوں کو اسی کی رضا کے لئے صرف کریں مراد خان نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے بھی پوری زندگی چہاردہ معصومین کی مدح سرائی میں گزاری ۔ مراد خان جیسے لوگ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں جن کی زندگی اور موت دونوں تاریخ پر گہرے نقش چھوڑ جاتے ہیں۔ خداوندا یہ ہمارا شاعر کہاں گیا ۔ اس کی روح پر تیری بے پایاں رحمتیں اور برکتیں نازل فرما ان کو جنت الفردوس میں جوارے آئمہ اطہار علیہم السلام میں اعلیٰ مقام عطا فرما اور ان کے جانشین دور حاضر کے عظیم مفکر کہنہ مشق محقق و ادیب ڈاکٹر حسن خان اماچہ اور ان کے رفقائے کار کے نیک توفیقات میں اضافہ فرما۔