بلتی شیکسپیئر
بلتی شیکسپیئر
حصہ دوم
تحریر: ممتاز نروی
خدا بلبل کو پر دے ، یا اسے پردہ نشین کردے
خدا مفلس کو زر دے ،یا اسے زیر زمین کر دے۔
جیسے لازوال شعر کا خالق آغا شاکر مرحوم گوناگوں خوبیوں کے مالک تھے ، بذلہ سنجی کا یہ عالم تھا کہ سنجیدہ تقاریب میں بھی جملے بازی سے باز نہ آتے ، کہا جاتا ہے کہ آغا صاحب کو شکایت تھی کہ گول گاؤں میں ترقیاتی سکیمیں نہیں رکھ رہے ،ایک وفاقی وزیر کے دورے کے موقع پہ انہوں نے ببانگ دہل سٹیج سے دو مطالبات پیش کئے ، انہوں نے کہا ” جناب عالی ہمارا مطالبہ ہے کہ اس گاؤں کا نام تبدیل کردیا جائے کیونکہ یہ گول ہے اس لیے منصوبے یہاں سے لڑھک کر سرمیک اور مہدی آباد پہنچ رہے اس لیے اس گاؤں کو مستطیل کیا جائے ، دوسرا مطالبہ یہ کہ ان بجلی کے کھمبوں کو زمین میں مزید دبا دیا جائے تاکہ خواتین ان تاروں پہ کپڑے سکھا سکیں ،بجلی تو آنی نہیں
اسی طرح ایک الیکشن میں آغا صاحب کا مخالف گروپ بسوں میں سرمیک کی طرف نکلے جہاں ہمایوں پل کے قریب سڑک پہ کام ہونے کی وجہ سے قافلہ پھنس گیا ،اغا مرحوم موٹر سائیکل پہ سوار تھے اس لیے کہیں پھنسے بغیر جلسہ گاہ پہنچنے میں کامیاب ہوا جہاں آپ نے تاریخی جملہ ادا کیا کہ “صاحب بس ” لوگ پھنس گئے ہم “بے بس” تھے اس لئے ہم پہنچ گئے
آغا شاکر سے منسوب کئی ایک واقعات کو سنسر کرتے ہوئے صرف چند ایک دو واقعات پر اکتفا کر رہا ، الیکشن کے دنوں میں ایک چرمی بیگ ہاتھوں میں لئے وہ اپنے ورکرز کے ساتھ انتخابی مہم میں مصروف تھے ، بیگ کافی وزنی لگ رہا تھا جس سے ان کے ورکرز سوچ رہے تھے کہ یقینا کہیں سے الیکشن کے لیے خرچہ پہنچا ہوگا اور یہ بیگ نوٹوں سے بھرا ہوگا ،اج تو لنچ پہ شاندار پارٹی انجوائے کرنے کو ملیں گے ، آخرکار لنچ کا وقت ہو ہی گیا ، آغا صاحب نے نماز ظہرین پڑھی ، سڑک کنارے چادر بچھا کے بیٹھ گئے اور بیگ کھول کے اندر سے موٹی سی روٹی (تھالٹق) نکالی اور بسم اللہ پڑھ کے شروع کیا اور ساتھیوں کو بھی یہ کہہ کر دعوت دی کہ یہ عین جد امجد کی سنت ہے اور ان کے سپورٹرز ہکا بکا ایک دوسرے کو تکتے رہ گئے ، میرا جی کر رہا کہ اس وقت کے ڈی سی سکردو غازی جوہر اور آغا صاحب کے درمیان ہونے والی گفتگو کو رقم کروں مگر ۔۔۔۔۔۔ ،
آغا شاکر مرحوم اپنی ذات میں انجمن شخص تھے ، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بچپن میں ریڈیو پاکستان سکردو سے ہر بدھ کی شام نشر ہونے والے ڈراموں کو شوق سے سنا کرتا تھا ، ڈراما “ژھے سکیالی بخستون ” یا شاید اس کا نام تھا ” ننگ نوبی بخستون ” کے جملوں اور دلہن کا کردار ادا کرنے والی آرٹسٹ کی آہ و فغاں نے مجھ پہ عجیب سی اداسی کا اثر کیا تھا جس کی اثر سے کئی روز میں نکل نہ سکا ، ہوا یوں کہ میرے جاننے والوں میں ایک نوعمر بچی کی شادی کراچی میں ہوئی تھی ،شنید یہی تھا کہ اس کا شوہر کوئی بوڑھا سیٹھ ہے ، گاڑی میں سوار ہوتے ہوئے وہ بچی اس انداز سے روئی کہ مجھے لگا کہ شاید در و دیوار بھی اس کے ساتھ سسکیاں لے رہیں اور فضا و آسمان بھی رو رہے ، وہ ہمارے کھیلنے کودنے کے دن تھے لیکن اس ڈرامے کی سین اور اس بچی کی سسکیوں نے مجھ سے کھیل کود چھین لیا تھا ، ڈرامہ نشر ہونے کے بعد فنکاروں کے نام میں آغا شاکر کا نام کئی بار دہرایا ،معلوم ہوا کہ لکھنے والا اور کردار ادا کرنے والا دونوں یہی ایک حضرت ہے ، تب سے ان کا نام ذہن پہ نقش سا ہوا۔