بلتی زبان تاریخ کے اوراق میں (گلگت بلتستان) وزیر آصف مایا
بلتی زبان اپنی بلاغت شائستگی شیرینی سلاست محاورے اور ضرب الامثال
History of Gilgit Baltistan, Balti language
غرض جملہ حشر سامانیوں کو اپنے جلو میں لیے ہونے کے باوجود اب تک ایک علاقائی بولی سے آگے نہ بڑھ سکی جب تک یہ زبان تبتی تھی تبت کی عظیم سلطنت کی طرح وست ایشیا کے مشرق سے مغرب تک اس کی دھوم تھی لیکن وہ سلطنت جب ٹوٹ گئی اور تبت کے حصے میں بخرے ہوگئی تو اس زبان کے بھی ٹکڑے ہوگئے تبت اصلی میں یہ زبان تبتی رہی میں تبت کلاں یعنی لداخ میں لداخی بن گئی اور تبت خورد میں بلتی زبان کہلائی۔ جناب سید محمد عباس کاظمی کی تحقیق ہے کہ یہ زبان بلتستان کے علاوہ تبت ، لداخ ، بھوٹان ،سکم اور نیپال کے شرپا قبیلے اور چینی وغیرہ میں بھی کم وبیش 28 لاکھ کی آبادی میں معمولی تبدیلی تبدیلیوں کے ساتھ بولی جاتی ہیں۔ بلتی زبان میں بے نظیر نثر پارے اور لاجواب منظومات موجود ہیں لیکن اس کی بد نصیبی یہ ہے کہ اس کا اپنا کوئی رسم الخط نہ ہونے کی وجہ سے یہ جواہر انہی پہاڑوں میں مدفون ہیں ۔ دنیا بے خبر ہے کی بلتی زبان کے کتنے قابل نثرنگار گزر گئے ہیں اور زمانہ ان کی تخلیقات کی کیا قدر افزائی ہو رہی ہے۔ بلتستان میں طلوع اسلام کے بعد عربی اور فارسی زبان کے اثرات اس قدر تیزی سے نفوذ پذیر ہوئے کی تبتی زبان یکدم متروک ہو گئی اور تمام مقدس کتابیں وظائف و قصائد و مراثی وغیرہ فارسی رسم الخط میں لکھے گئے۔ ڈوگرہ تسلط کے بعد بلتستان میں ڈوگری زبان ، ہندی اور اردو زبانوں کا رواج ہوگیا۔فارسی سرکاری اور دفتری زبان قرار پائی ۔ڈوگری صرف ملازمین کے باہمی گفتگو میں مستعمل تھی ۔ہندی صرف ہندو باشندے آپس میں بولتے تھے ۔ البتہ اردو زبان کو بلتی کے ساتھ ساتھ ثانوی زبان کی حیثیت مل گئی لیکن بلتی زبان کو اپنی طرز تحریر لہجے اور تلفظ کی صحت کے لئے چند حروف کی ضرورت تھی اس سے وہ محروم رہ گئی حلقہ علم و ادب بلتستان کی مساعی جمیلہ کے نتیجے میں ملک کے نامور دانشور و زبان دان جناب محمد یوسف حسین آبادی کی سرکردگی میں چند اہل قلم حضرات نے ان آوازوں کے لیے چند حروف وضع کیے ہیں جس کی وجہ سے یہ مشکل حل ہو گئی۔ اور اب بلتی زبان جس طرح بولی جاتی ہے اسی طرح لکھی اور پڑھی بھی جاتی ہے چناچہ اس طرز نو کی بسم اللہ کے طور پر جناب محمد یوسف حسین آبادی صاحب نے قرآن حکیم کا بلتی ترجمہ پہلی دفعہ کرکے نہ صرف اپنی عاقبت سنوار یہی بلکہ بلتی ادب و ثقافت کا مستقبل بھی سدھارنے کا بہت بڑا اقدام کیا ہے خانوادہ رحیم و کریم ان کو اپنی مساعی جمیلہ کا اجر عظیم عطا کریں۔