دہشت گردی کی نئی لہر، پروفیسر قیصر عباس

دہشت گردی کی نئی لہر، پروفیسر قیصر عباس
وطن عزیز میں گزشتہ چند روز سے دہشت گردی کی ایک تازہ لہر نے زور پکڑا ہے جو کہ نا صرف ارباب اختیار بلکہ ہر محب وطن پاکستانی کے لئے تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔چند روز پہلے بلوچستان کے علاقے پسنی میں سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا گیا۔سکیورٹی فورسز کی گاڑیوں کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب یہ گاڑیاں پسنی سے اورماڑا جا رہیں تھیں ۔یاد رہے پسنی بلوچستان کا ایک اہم شہر اور مچھلی کے کاروبار کے حوالے سے بہت مشہور ہے یہ ساحل مکران ٫بحیرہ عرب پر کراچی سے 300کلومیٹر دور ضلع گوادر میں واقع ہے۔اس وحشیانہ حملے میں 14فوجی جوان شہید ہوئے ہیں جن میں 4 کا تعلق گلگت بلتستان کے علاقے شگر سے ہے۔یوں شگری نوجوانوں نے اپنی جانیں وطن عزیز کی سر بلندی کے لئے قربان کر دیں ہیں۔ڈی آئی خان میں مختلف مقامات پر دھماکے ہوئے جن میں چھ افراد شہید اور پندرہ سے زائد پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں ۔ٹانک میں ایلیٹ فورس کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیاجس کے نتیجے میں سکیورٹی فورسز کی کے اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔اس کے بعد میانوالی ائیر بیس کو نشانہ بنایا گیا ہے ۔سکیورٹی فورسز نے جانفشانی سے اس حملے کو ناکام بنا کر 9دہشت گردوں کو ابدی نیند سلا دیا ۔آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق “ہفتے کی صبح ٹریننگ ائیر بیس میانوالی پر بزدلانہ اور ناکام حملے کے بعد آس پاس کے علاقے میں کسی بھی ممکنہ خطرے کو ختم کرنے کے لئے سکیورٹی فورسز کی جانب سے آپریشن شروع کیا گیا جس کے نتیجے میں 9 دہشت گرد مارے گئے .”ایک اور واقعہ میں ڈی آئی خان میں ہی ایک آئل کمپنی کے کیمپ پر دہشت گردوں نے حملہ کیا جس کے نتیجے میں دو پولیس اہلکار جام شہادت نوش کر گئے ۔یہ افسوس ناک واقعہ ڈی آئی خان کی تحصیل درازندہ میں پیش آیا ہے ۔مزکورہ بالا واقعات سے یہ بات اخذ کی جاسکتی ہے کہ جہاں ملک دشمن عناصر دہشت گردی جیسے ناسور کو تقویت دینے کی کوشش کر رہے ہیں وہی ملک کی حفاظت کرنے والے جذبہ ایمانی سے سرشار ہمارے سکیورٹی فورسز کے جوان اتنے چاک وچوبند ہیں کہ ہر دفعہ دہشت گردوں کو ناکامی اور شکست کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔اگرچہ ان واقعات میں سکیورٹی فورسز کے جوانوں کی ایک قلیل تعداد نے اپنی جانیں ملک عزیز پر قربان کی ہیں مگر ان کی قربانیوں کی وجہ سے ملک عزیز بڑی تباہی سے بچا لیا گیا ہے۔لیکن غور طلب بات ہے کہ دہشت گردی کی اس لہر نے پھر سے یک دم سر کس طرح اٹھا لیا ہے؟ تو اس میں سب سے بڑی وجہ افغان مہاجرین کی ملک بدری ہے ۔کیونکہ ارباب اختیار نے کلی طور پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ افغان مہاجرین کو ان کے آبائی ملک افغانستان بھیجا جائے گا اور آئندہ کے لئے سرحد پار آنے جانے کےلئے ویزہ پالیسی پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے گا۔اس حوالے سے موجودہ حکومت نے افغان مہاجرین کے لئے رضاکارانہ ملک چھوڑنے کے حوالے سے 31اکتوبر 2023کی تاریخ کوڈیڈلائن قرار دیا تھا۔جب کہ یکم نومبر سے ہر غیر قانونی افغان شہری کو جبراً افغانستان ڈی پورٹ کردیا جائے گا۔حکومتی اعلان اور عملی اقدامات کے بعد اچانک سے ملک میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر کاآغاز ہوا ہے اور اسے موجودہ افغان پالیسی سے کسی صورت بھی علیحدہ نہیں کیا جاسکتا ان حالات کا تعلق لازمی ملک دشمن خفیہ ایجنسیوں سے ہے جو کہ ملک عزیز میں ایک بے چینی کی کیفیت پیدا کرکے عالمی سطح پر پاکستانی ساکھ کو خراب کرنے کی ایک بھونڈی کوشش کر رہیں ہیں ۔مقصد صرف یہ ہے کہ عالمی سطح پر ملک عزیز کو ایک” ناکام ریاست “ثابت کیا جائے ۔ اگرچہ ہمارے ازلی دشمن ملک کی ہر سفارتی سطح پر کوشش ہوتی ہے کہ پاکستان کو نیچا دکھایاجائے اور کشمیر اور اس سے جڑے دیگر اہم مسائل سے توجہ ہٹائی جائے اور وطن عزیز میں ایک خوف کی فضاء قائم کی جائے ۔مگر سب سے زیادہ افسوس اس امر کا ہوتا ہے کہ افغانستان جسے ہم نے ہر معاملے میں ہمیشہ سپورٹ کیا ہے چاہے مہاجرین کا مسلہ ہو یا 9/1 کے بعد کے واقعات ٫افغانستان کے حکمرانوں نے ہمیشہ دانستہ یا غیر دانستہ ایسے اقدامات کئے ہیں جن سے پاکستانی مفادات کو نقصان پی پہنچا ہے۔شمالی اتحاد کی حکومت کے دوران پاکستان سے ملحقہ افغان شہروں میں بھارتی قونصل خانے بنائے گئے جو بھارتی خفیہ ایجنسی راء کے تربیت یافتہ جاسوسوں کی آماجگاہ بنے رہے۔جس کی وجہ سے پاکستان میں آئے روز خودکش حملے اور بم دھماکے ہوتے رہے۔جب امریکہ افغانستان سے نکلا اور طالبان نے حکومت سنبھالی تو اس بات کی امید پیدا ہوئی کہ اب افغان سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لئے استعمال نہیں کی جائے گی اور بار بار افغان حکومت کی توجہ ان مسائل کی طرف دلانے کے باوجود افغان طالبان کی طرف سے کوئی سنجیدہ رویہ نہیں دیکھا گیا۔پاکستانی وزارت داخلہ کی تازہ ترین رپورٹس کے مطابق پاکستان میں خودکش حملوں اور بم دھماکوں میں سب سے زیادہ افغان شہری ملوث ہیں۔ جو انتہائی افسوناک بات ہے۔حکومت وقت کو چاہئے کہ افغان طالبان حکومت کو اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ سرحد پار دہشت گردی کو کنٹرول کرے اور افغان سرزمین کو پاکستان مخالف سرگرمیوں کے لئے استعمال نہ ہونے دے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات معمول پر آ سکیں۔
پروفیسر قیصر عباس!

تازہ ترین نوکریوں‌کے معلومات کے لیے وزٹ کریں ... لنک
Urdu news, Urdu column, new wave of terrorism

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں