اسکردو ، بلتستان یونیورسٹی میں چوتھا سالانہ یومُ الحسین ؑ کا انعقاد

اسکردو ، بلتستان یونیورسٹی میں چوتھا سالانہ یومُ الحسین ؑ کا انعقاد
urdu news, skardu 4th Annual Hussain A.S Day held at University of Baltistan
سکردو (عابد شگری ) بلتستان یونیورسٹی سکردو کے تحت چوتھا سالانہ یوم الحسینؑ انچن کیمپس آڈیٹوریم میں منعقد ہوا۔ ’’ہم سب کے ہیں حسین ؑ، اتحادِ بینُ المسلمین کانفرنس‘‘ کے عنوان سے منعقدہ کانفرنس میں تمام مکاتبِ فکر کے علمائے کرام اور دانشور حضرات شریک تھے جبکہ اسلام آباد سے آئے ہوئے ہائرایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کے ایک وفد نے بھی مذکورہ کانفرنس میں شرکت کی ۔ کانفرنس میں مختلف مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام نے خطاب کیا۔ جبکہ ننھے مُننھے ثناء خواں خواجہ علی کاظم نے بھی خصوصی طور پر شرکت کی اور امام عالی مقامؑ کی شانِ اقدس میں عقیدت کے پھول نچھاور کئے۔اُنہوں نے سلام کے چند اشعار بھی پیش کئے۔ کانفرنس کے کلیدی مقرر مشہورِ عالم دین، کئی کتابوں کے مترجم اور جامعۃ النجف سکردو کے پرنسپل محمد علی توحیدیؔ تھے۔ جبکہ دیگر مقررین میں بلتستان یونیورسٹی شعبہ ایجوکیشنل ڈیویلپمنٹ کے صدر ڈاکٹر صابر علی وزیریؔ، ابھرتا ہوا نوجوان اسکالر و خطیب اشرف علی تابانیؔ، شعلہ بیاں مقرر بوا محمد محسن، مفتی خالد محمود اور خواہر نجمہ شامل تھے۔خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر ذاکر حسین ذاکرؔ نے تمام مہمانوں اور شرکائے کانفرنس کو خوش آمدید کہا اور یومِ حسینؑ کے انعقاد کے مقاصدسے آگاہ کیا۔ کلیدی مقرر کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے علامہ محمد علی توحیدیؔ نے حسینؑ شناسی کی ضرورت پر زور دیا۔ اُنہوں نے عالمی سطح کی مشہور شخصیات کی شہرت کی وجوہات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا وجہ ہے کہ وہ شخصیات اپنے محدود نظریات کے باوجود آج بھی اُن کے نام زبانِ زد عام و خاص ہیں اور اُن کے نظریات معاشرتی تغیر و تبدل کا باعث بنے۔ جبکہ حسینؑ اور اُن کے بابا علیؑ تو اِن شخصیات سے مقدس و محترم ہیں، پھر بھی دُنیا ان سے غافل ہے۔ محمد علی توحیدیؔ نے کہا کہ چونکہ ہماری کوتاہیاں اور کمزوریاں ہیں اور ہم نےاِن شخصیات کی درست پہچان نہیں کرائی ہے لہٰذا حسینؑ کی پہچان صرف مسلمانوں خاص طور پر محبانِ حسینؑ تک محدود رہ گئی ہے۔ہم نے ”حسین سب کا“ کا نعرہ تو بلند کیا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم بھی حسینؑ کے ہیں؟۔اُنہوں نے خطہ گلگت بلتستان کی امنیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے دیگر صوبوں میں کئی سو لوگ دہشتگردی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ لیکن گلگت بلتستان واحد صوبہ ہے جہاں پر جرائم کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں پر سب حسینؑ کو ماننے والے اور حسینؑ کا احترام کرنے والے لوگ ہیں۔ ڈاکٹر صابر علی وزیریؔ نے حسینؑ کے مقام و مرتبہ اور حسینی طالب علم کی ذمہ داریوں کی نشاندہی کی۔ اُنہوں نے حسینیؑ طالب علم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امتحان کے دوران کسی دوسرے کا علمی مواد سرقہ نہ کرکے صرف اپنی فکرکو بنیاد بناکر پرچہ حل کرنےو الا ہی حسینیؑ طالب علم ہے۔ حسینی طالب علم وقت کا پابند اور ذمہ داریوں کا حریص واقع ہوتا ہے۔ شعلہ بیاں مقرر بوا محمد محسن نے بلتستان یونیورسٹی میں یومِ حسینؑ کے انعقاد کو اِنتہائی مثبت اقدام قراردیا۔ اُنہوں نے اُمتِ وسط کی تشریح قرآنی آیات کی روشنی میں کی۔ اُنہوں نے حسینؑ کے ماننے والے کو افراط و تفریط سے پاک قرار دیتے ہوئے کہا کہ حسینی تعلیمات نہ تو شدت پسندی کی عکاسی کرتی ہیں اور نہ ہی غلو کو پروان چڑھاتی ہیں۔ نوجوان اسکالر و منجھے ہوئے خطیب اشرف حسین تابانیؔ نے جدید طالب علم کی ذمہ داریوں اور احساسات کو نمایاں کیا۔ اُنہوں نے زینبی کردار پر بات کرتے ہوئے کہا کہ واقعہ کربلا ایک ایسا دلخراش واقعہ تھا کہ حضرت زینب کی آنکھوں کے سامنے تمام عزیز واقارب شہید ہوگئے۔ اِس قسم کے واقعات کسی بھی انسان کو حواس باختہ کرنے کےلئے کافی ہیں لیکن کردارِ زینبی دیکھیں کہ وہ مخدرہ عصمت ایک پوری انجمن کی حیثیت سے کھڑی ہوگئی اور تشہیرِ واقعہ کربلا کا باعث بنیں۔ اُنہوں نے کہا کہ یونیورسٹیاں ہماری تہذیب کی نرسیاں اور خزینۂ علوم کی مرکز ہوتی ہیں۔ یہاں سے احساسِ ذمہ داری کا پاس رکھنے والا طالب علم نکلنا چاہیے۔اُنہوں نے یومِ حسینؑ کے انعقاد کو خوش آئندقرار دیا اور جامعہ ہذا کی مثبت سرگرمی قرار دی۔ خواہر نجمہ نے حسینؑ کو آفاقیت کا جدید عنوان قرار دیا اور طالب علموں کو حسینؑ سے وابستہ رہنے اور حسینیت کی پرچار کرنے کی نصیحت کی۔ مفتی خالد محمود نے حضوراکرمؐ کی ذات اقدس کو مرکزِ اتحاد کا نمایاں ترین منبع قرار دیتے ہوئے اتحاد و اتفاق اور بھائی چارگی کی تلقین کی۔ اُنہوں نے کہا کہ ہمارے پاس یکجا ہونے کےلئے باہمی مشترکات ہی کافی ہیں، بجائے اِس کے کہ ہم اختلافات کی طرف جائیں۔ اُنہوں نے یومِ حسینؑ کے انعقاد کو اتحاد و اتفاق کےلئے نیک شگون قرار دیا۔کانفرنس کے اختتام پر یومِ حسین کانفرنس کے کنوینئر ڈاکٹر ریاض رضیؔ نے معزز مہمانوں، علمائے کرام اور طلباء و طالبات کا شکریہ ادا کیا اور قرار دیا کہ بلتستان یونیورسٹی نہ صرف اتحاد بین المسلمین کی حامی ہے بلکہ اتحاد بین المذاہب کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ گذشتہ کانفرنسز میں مختلف مذاہب کے اسکالرز کا مذکورہ کانفرنس میں شریک ہونا اِس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کانفرنس میں حمد و ثناء، نعت و منقبت اور سلام پڑھے گئے اور امام عالی مقامؑ کے حضور نذرانۂ عقیدت پیش کیا گیا۔ اسٹیج سیکرٹری کے فرائض شعبہ ریاضی کے طالب علم محمد حسن شادابؔ اور شعبہ لسانیات کے طالب علم محمد شیراز نے انجام دیئے۔ دوسری جانب کانفرنس کے تمام تر انتظامات کی ذمہ داری بلتستان یونیورسٹی کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے طالب علموں نے ادا کی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں