گندم سبسڈی کا خاتمہ کی افواہ ۔امان بونجوی

گندم سبسڈی کا خاتمہ کی افواہ ۔امان بونجوی
گلگت بلتستان کے متنازع خطے کی حیثیت اس وقت پاکستان کیلئے نہایت اہمیت کا حامل ہے ویسے تو عالمی قانون کے مطابق کے ہر ملک کی ذمہ داری ہے کہ کوئی بھی متنازع خطہ اگر اس ملک کے زیرنگرانی ہے تو اس ملک کے عوام کو مختلف اشیائے خوردونوش پر ، تعلیم پر اور صحت پر مکمل سبسڈی دے دیں ۔ ٹھیک اس عالمی قانون کے تحت گلگت بلتستان کے عوام کو بھی 29 اشیائے پر سبسڈی دیا گیا تھا جوکہ آہستہ آہستہ ختم ہوتا گیا اور گندم سبسڈی کو اس لیے برقرار رکھا گیا کیونکہ اس خطے میں گندم کی پیداوار نہایت کم ہے گلگت بلتستان کا 60 فیصد زمین ایک فصلی ہے یہاں لوگ گندم نہیں اگا سکتے ہیں ۔ ان حالات کو دکھاتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے گلگت بلتستان کے عوام کیلئے گندم سبسڈی دینے کا اعلان کیا تھا ۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دی جانے والی اس سبسڈی کو گلگت بلتستان کے عوام آج ایک نہ ختم ہونے والا تحفہ سمجھ رہے ہیں ۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دی جانے والی سبسڈی کو ہر آنے والی حکومت نے گلگت بلتستان کیلئے برقرار رکھا۔ اس سبسڈی کو بڑھایا گیا اور اس کو کم نہیں کیا گیا ۔ سالانہ گلگت بلتستان کے آبادی کے تناسب سے سبسڈی کو بڑھایا جاتا تھا یہ سلسلہ جاری ہے ۔ 2009 میں جب گلگت بلتستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت بن گی تو گلگت بلتستان کے عوام کیلئے اس وقت 9 لاکھ گندم کی بوریاں مختص تھیں تب وزیر اعلی گلگت بلتستان سید مہدی شاہ کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی وفد نے آصف علی زرداری سے ملاقات کیا اور گندم کی کمی سے آگاہ کیا جس پر صدر پاکستان آصف علی زرداری نے فوری احکامات جاری کر دیا اور گلگت بلتستان کو ملنے والی 9 لاکھ گندم کی بوریوں کو 15 لاکھ کر دیا اور پیپلز پارٹی کے حکومت میں یہ 15 لاکھ بوریاں گلگت بلتستان کے عوام ملتے رہے۔ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت اور وفاقی حکث کی مدت پوری ہونے کے بعد وفاق میں مسلم لیگ ن کو حکومت ملی اور وفاقی حکومت کے اثرورسوخ سے گلگت بلتستان میں ن لیگ کو حکومت مل گئی حفیظ الرحمن وزیراعلی گلگت بلتستان منتخب ہو گئے اور موجودہ وزیر خوراک جناب غلام محمد صاحب کو مشیر خوراک کا قلمدان دیا گیا ۔۔2015 میں بنے والی مسلم ن لیگ کی صوبائی اور وفاقی حکومت نے ایک فارمولا کے تحت گلگت بلتستان کو ملنے والی گندم کے جبکہ پیسوں کا تعین کیا اور ن لیگ کی وفاقی حکومت کے ساتھ مل کر حفیظ الرحمن نے گندم کی جگہ گلگت بلتستان کیلئے پیسے مقرر کروایا بظاہر دکھایا جائے تو یہ ایک نہایت غلط فیصلہ تھا جس کو ن لیگ نے قبول کر لیا اور وفاق کے سر جو زمہ داری تھی اس کو اٹھا کر گلگت بلتستان حکومت کے سر لیا ۔ یہاں سے سبسڈی کے خاتمہ کا نظام شروع ہوا ہے اب وفاق گلگت بلتستان کو گندم کے جگہ میں پیسے دیتا ہے اس وقت گندم سبسڈی کیلئے 6 ارب روپے مقرر کئے تھے ۔ حفیظ الرحمن کے دوبارہ میں گلگت بلتستان بھر احتجاجی دھرنے ہوئے ۔ مہدی شاہ کے دور میں بھی دھرنے ہوئے اور خالد خورشید کے دور میں بھی دھرنے ہوئے ۔ پاسکو اور وفاقی حکومت کی زمہ داری کو اپنے سر اٹھا کر اس وقت مسلم لیگ ن گلگت بلتستان کی حکومت نے تاریخ کی سب سے بڑی غلطی کی ہے جس کا نتیجہ ابھی آہستہ آہستہ عوام کے سامنے آ رہا ہے ۔ اب گلگت بلتستان حکومت اور وزیراعلی حاجی گلبر خان حکومت اور کابینہ کی فیصلہ کی بات کرتے ہیں ۔ اس وقت گلگت بلتستان کیلئے گندم خریداری کیلئے ساڑھے 9 ارب روپے مختص ہیں ۔ ان پیسوں سے گندم کی خریداری پوری نہیں ہوتی ہے وفاقی حکومت گلگت بلتستان کے مزید سبسڈی کی مد پیسے دینے کو تیار نہیں ہے ۔ گلگت بلتستان میں اس وقت ایک بوری حکومت کیلئے 16 ہزار روپے کی مل رہی ہے اس کے باوجود ہر وقت گلگت بلتستان میں گندم کا بحران رہتا ہے عوام کو آٹا نہیں مل رہا ہے ۔ ہر بندے کی شکایت رہتی ہے کہ آٹا نایاب کے بازار سے 7 ہزار روپے کا 20 کلو مل رہا ہے ۔ جب کہ موجودہ حالات میں صوبائی حکومت کے پاس دو مہینے بعد تمام پیسے ختم ہوں گے اس کے بعد گلگت بلتستان میں بہت بڑا بحران جنم لے گا۔ ۔ حکومت کے زمہ دار وزیر کا کہنا ہے اب ملازمین کی تنخواہ دینا بھی مشکل ہوگیا ہے ۔ صوبائی حکومت کے پیسے ہی نہیں ہے وفاقی حکومت کے انصار پر ہیں ۔ اگر وفاق بروقت گلگت بلتستان کیلئے 6,7 ارب روپے فراہم نہیں کرے گا تو گلگت بلتستان میں بہت سخت حالات پیش آئینگے ۔ ان سب حالات کو دیکھ کر صوبائی حکومت نے کابینہ اجلاس میں ایک تجویز پیش کیا ہے کہ گلگت بلتستان میں گندم کی قیمت میں معمولی سا اضافہ کیا جائے ۔ اور یہ اضافہ عوام کو اعتماد میں لیکر تمام سیاسی پارٹیوں کو اعتماد میں لیکر ۔ عوامی ایکشن کمیٹی اور دیگر اہم اسٹیک ہولڈر کو اعتماد میں لیکر کیا جائے گا ۔ اب تک ایسا کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے کہ گلگت بلتستان سے گندم سبسڈی کا خاتمہ کیا جائے ۔ تاہم کچھ لوگوں نے حکومت کی تجویز کو یہ سمجھ لیا ہے کہ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حاجی گلبر خان کی حکومت نے سبسڈی کا خاتمہ کیا ہے اور سبسڈی کا خاتمہ صوبائی حکومت کر بھی نہیں سکتی ہے کیونکہ سبسڈی وفاقی حکومت دے رہی ہے اب گندم سبسڈی کی جگہ پیسے دیئے جاتے ہیں اگر وفاق گلگت بلتستان کیلئے گندم سبسڈی کی رقم بڑھا دے گی اور کن سے کم سبسڈی کو 15 ارب تک لے گئے تو پھر کسی حد تک گلگت بلتستان میں گندم بحران میں اضافہ ہوگا ۔ صوبائی کابینہ کی فیصلہ کی تشریح کو میڈیا اور سوشل میڈیا میں غلط کیا جاتا ہے ۔ حکومت کی طرف سے پیش کردہ تجویز کو لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ اب گلگت بلتستان سے سبسڈی کا خاتمہ ہونے جا رہا ہے ۔ عوام اور نوجوان نے سوشل میڈیا میں سخت رد عمل دے دیا ۔ اسٹیک ہولڈرز نے احتجاج کی دھمکی دے دیا ۔ تاہم اب ایک زمہ دار شہری کا میرا بھی حق بنتا ہے کہ ہمیں بھی حکومت کی مجبوریوں کو سمجھ لینا چاہیے اگر معمولی رقم میں اضافے سے گلگت بلتستان کی حکومت پر بوجھ کم پڑتا ہے اور گلگت بلتستان میں گندم کا بحران کسی حد تک ختم ہوتا ہے تو اس فیصلے کو اپنے حق میں سمجھتے ہوئے قبول کرنا چاہیے تاہم حکومت کو اتنا رقم بھی ایک دم نہیں بڑھنا چاہیے جس سے لوگ سمجھ جائے کہ گلگت بلتستان سے سبسڈی کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ حکومت کی تجویز کو مثبت سمجھ لینا چاہیے کہ حکومت نے کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے عوام سے مشورہ کرنے کا فیصلہ کیا ۔ گلگت بلتستان کو متنازع خطے کی حیثیت سے دی جانے والی سبسڈی کو اب یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ یہ سبسڈی صرف غریبوں کیلئے آرہی ہے ۔ ایک زمہ دار وزیر کی بیان سن لینے کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ موصوف کو خود کابینہ میں موجود ہوتے ہوئے بھی پتا نہیں ہے حکومت کیا فیصلہ کر رہی ہے موصوف کی بار بار میڈیا میں غلط بیانات دینے کی وجہ سے عوام کا شیدی رد عمل سوشل میڈیا میں وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حاجی گلبر خان حکومت کے خلاف آیا ۔ تاہم حکومت نے اب تک ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے اس کو گندم کم ریٹ پر ملے گی اس کو زیادہ ریٹ پر ملے گی ۔ مجھے یقین ہے کہ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حاجی گلبر خان کبھی ایسا فیصلہ نہیں کرینگے جس کی وجہ سے گلگت بلتستان کے عوام اشتعال میں آئینگے ۔ گلبر خان ایک نہایت زیرک سیاستدان ہیں جو چھوٹی سی چھوٹی چیز کو سمجھ رہے ہیں۔ ۔ اب میری گزارش ہو گی صوبائی وزراء جو دن رات میڈیا میں آرہے ہیں وہ خدا کیلئے خود جو سیاست دان ثابت کرنے کیلئے ایسی بیانات نہ دیں جس کا آپ کو علم ہی نہیں ہوگا ۔ پیپلز پارٹی کی حکومت میں موجودگی بھی عوام کیلئے ایک مثبت پوائینٹ ہے کیونکہ پیپلز پارٹی کبھی ایسا فیصلہ کرنے نہیں دے گی جس سے گندم سبسڈی کا خاتمہ ہوگا ۔ کیونکہ گلگت بلتستان کیلئے گندم سبسڈی پیپلز پارٹی کا تحفہ ہے ۔ عوام پیپلز پارٹی کو اور بھٹو کو گندم سبسڈی کی وجہ سے اپنا محسن سمجھ رہے ہیں۔ عوام مطمئن رہے اب تک صوبائی حکومت نے کوئی ایسا فیصلہ نہیں کیا ہے جس سے عوام پر حد سے زیادہ اضافی بوجھ ڈالا جائے گا ۔ میری ذاتی رائے یہی ہے اگر ہمیں وافر مقدار میں گندم مل کر معمولی رقم بڑھا دی جاتی ہے اس کو خوشی خوشی قبول کرنا چاہیے ۔ میں نے زمہ دار بندے سے جب ان کے فیصلے کے حوالے سے بات کیا تو اس نے کہا کہ آپ لوگ ہماری پریس کانفرنس کو غور سے سن لو ۔ ہم نے کبھی سبسڈی کے خاتمے کی بات نہیں کی ہے اور ایسا فیصلہ ہم کرینگے بھی نہیں جس سے عوام کا نقصان ہوگا ۔ لہذا بغیر سمجھ کے کچھ لوگ ہماری تجویز کو کسی اور طرف لیکر جا رہے ہیں ۔ حکومت گندم بحران سے نکلنے کے لئے مختلف راستے دیکھ رہی ہے اگر وفاق نے تعاون نہیں کیا تو مجبوراً شاید معمولی قیمت میں اضافہ کرنا ہوگا ۔۔ اب عوام کی زمہ داری بھی بنتی ہے کہ اپنے آپ اور حکومت کو مشکل سے نکالنے کیلئے عوام بھی تعاون کرے اور مجھے یقین ہے عوام تعاون بھی کرے گی ۔ اب اس کے بعد قارئین کرام میرا بھی خیال ہے ہمیں سمجھ جانا چاہیے کہ حکومت نے کوئی ایسا فیصلہ نہیں کیا ہے اور نہ ہی ختم کرے گی کیونکہ یہ عوامی حکومت ہے عوام کے ووٹ سے منتخب حکومت ہے ۔ وزیراعلی گلگت بلتستان حاجی گلبر خان کبھی بھی کمزور فیصلہ نہیں کرینگے ۔ وزیر اعلیٰ بااختیار ہیں ۔ وزیراعلی گلگت بلتستان بہت جلد قوم کو گلگت بلتستان سے گندم بحران کی خاتمے کی خوشخبری دینگے ۔ ٹارگیٹڈ سبسڈی ۔ بی آئی ایس پی کے زریعے ملنے والی سبسڈی کی باتیں سب جھوٹ ہیں ۔ لہذا عوام ان باتوں پر دھیان نہ دیں ۔ یہ صوبائی حکومت کے خلاف ایک جھوٹا پروپیگینڈا ہے جوکہ ایک غیر منتخب وزیر کر رہا ہے ۔ میرا دل زمہ دار بندے سے بات کرنے کے بعد مطمئن ہے کہ صوبائی حکومت کوئی ایسا اقدام نہیں اٹھا رہی ہے تاہم معمولی رقم میں اضافے کے ساتھ ساتھ گندم سبسڈی کی ریٹ میں گلگت بلتستان کے عوام کو ملے گا ۔ اور اگر معمولی رقم بڑھ گئی تو عوام کو قبول کرنا ہوگا ۔ ن لیگ کی صوبائی حکومت کو 2016 میں غلطی نہیں کرنا چاہیے تھا کہ پاسکو اور وفاق کی زمہ داری کو اپنے سر لیا جائے م اگر اس وقت حفیظ حکومت گندم ہی لیتی تو یہ زمہ دار آج بھی پاسکو اور وفاقی حکومت کی ہوتی کہ وفاقی حکومت گلگت بلتستان کیلئے 15 لاکھ گندم کی بوریاں فراہم کرے ۔ مگر حفیظ حکومت کی چھوٹی سی غلطی آج گلگت بلتستان کیلئے ایک ایک عذاب بن کے سامنے آرہی ہے ۔ آج بھی صوبائی حکومت سبسڈی کے مد میں ملنے والے رقم کو واپس کر کے وفاق کو ڈیمانڈ کرے کہ وفاقی حکومت پاسکو کے زریعے سے گلگت بلتستان کیلئے گندم فراہم کرے ۔ یہ زمہ دار وفاق کی ہے وفاق گلگت بلتستان کیلئے 15 لاکھ گندم کی بوریاں فراہم کرے۔
Urdu column, rumor of the end of wheat subsidy

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں