اکتوبر اور پاکستانی سیاست . پروفیسر قیصر عباس

اکتوبر اور پاکستانی سیاست- پروفیسر قیصر عباس
پاکستانی سیاست میں اکتوبر کے مہینے کی بہت اہمیت ہے ۔اگرچہ پاکستان اگست کے مہینے میں آذاد ہوا مگر اکتوبر کو کسی صورت بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔16اکتوبر 1951ءکو ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو روالپنڈی میں ایک جلسہ کے دوران سید اکبر نامی شخص نے گولی مار کر شہید کردیا۔سب سے حیرانگی کی بات یہ ہے کہ اس شخص کو زندہ گرفتار کرنے کی بجائے موقع واردات پر ہی مار دیا گیا۔چاہئے تو یہ تھا کہ قاتل کوزندہ گرفتار کیاجاتا تاکہ اس قتل کے پیچھے چھپے خفیہ ہاتھوں کو تلاش کیا جاسکتا مگر ایسا نہ کیا گیا اس طرح پاکستان کے پہلے مقتول وزیراعظم کے اصل قاتلوں کو کوئی نہ جان سکا۔۔پاکستان میں پہلا مارشل لاء بھی 7 اورآٹھ اکتوبر کی درمیانی رات کو اس وقت کے صدر سکندر مرزا کی تجویز پر لگا جس کی ٹھیک 20دن بعد جنرل ایوب خان نے سکندر مرزا کو ایوان صدر سے بے دخل کر کے اقتدار خود سنبھال لیا اور سکندر مرزا باقی عمر لندن میں گزارنے پر مجبور ہوئے۔ملک میں چھوتا اور ابھی تک کا آخری مارشل لاء بھی اکتوبر کے مہینے یعنی 12اکتوبر 1999ءکو اس وقت لگا جب اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف سری لنکا کے سرکاری دورے پر تھے تو اس وقت کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے انہیں برطرف کرکے جنرل خواجہ ضیاء الدین بٹ کو آرمی چیف لگا دیا ۔مگر میاں صاحب کی یہ کوشش اس وقت کی پاکستان میں موجود فوجی قیادت نے ناکام بنادی یوں میاں صاحب نیا آرمی چیف لگاتے لگاتے خود ہی وزارت اعظمی سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔اس کے بعد برادر اسلامی ممالک کی شفارش پر انہیں ایک معاہدے کے تحت جلاوطن کردیا گیا(اس معاہدے کی شریف فیملی تردید کرتی رہی ہے).18اکتوبر 2007ء کو جب سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو طویل جلاوطنی کے بعد واپس پاکستان آئیں تو کراچی ائیرپورٹ پر جیالوں نے ان کا شاندار استقبال کیا اور ائیر پورٹ سے کارساز تک چند منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے کیاگیا مگر جونہی یہ قافلہ کارساز کے مقام پر پہنچا تو دھماکہ ہواجس سے تقریبا 150 کے قریب افراد شہید ہوئے اور سینکڑوں کی تعداد میں زخمی ہوئے تاہم اس دھماکے میں بے نظیر بھٹو محفوظ رہیں مگر دوماہ بعد یعنی 27 دسمبر 2007 ء کو لیاقت باغ راولپنڈی میں دوبارہ انہیں ٹارگٹ کیا گیا جس کی وجہ سے بے نظیر بھٹو شہید ہوگئیں ۔
عمران خان کا لاہور مینار پاکستان والا جلسہ جس کے بعد بڑے بڑے سیاست کے کھلاڑیوں نے تحریک انصاف کارخ کیا تھا وہ بھی اکتوبر ہی کے مہینے میں 2011ء کو منعقد ہوا تھا۔اس کے بعد پھر تحریک انصاف پاکستان کی اہم سیاسی جماعت بن گئی۔جو کہ 9مئی 2023ءکے بعد تتربتر ہوگئی ہے.اکتوبر کا مہینہ ایک بار پھر سے اہمیت اختیار کر گیا ہے کیونکہ اسی مہینے کی 21تاریخ کو پاکستان کے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ کے قائد چار سال کی طویل جلاوطنی کے بعد واپس پاکستان آگئے ہیں۔پاکستان آمد کے ساتھ ہی انہوں نے گریٹر اقبال پارک لاہور میں ایک فقید المثال جلسے سے خطاب کیا ہے جس میں انہوں نے چارٹر آف اکنامی پیش کیا ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ “میں انتقام لینے نہیں آیا بلکہ اس قوم کی خوشحالی کا پلان لے کے آیا ہوں”۔انہوں نے مزید کہا “سیاسی جماعتوں اور اداروں کو مل کر کام کرنا ہوگا٫نئے سفر کی ضرورت ہے اب ڈبل سپیڈ کے ساتھ دوڑنا پڑے گا٫کشکول ہمیشہ کے لئے توڑنا پڑے گا٫جگانے آیا ہوں٫آگے بڑھو٫پاکستان سنبھالو٫آئندہ کسی کو پاکستان کے ساتھ کھلواڑ کی اجازت نہ دینا۔”میاں صاحب نے جلسے میں موجود شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا”گالی کا جواب گالی سے نہیں دینا٫ہم تعمیر نو کریں گے٫بجلی کے نرخ کم کریں گے٫بیروزگاری کم کریں گےاورانصاف کے نظام میں اصلاحات لائیں گے۔”میاں صاحب نے دوران تقریر جذباتی گفتگو بھی کی انہوں نے کہا”یہ زندگی کا مال اور کاروبار چلا جاتا ہے تو پھر آجاتا ہے لیکن جو اپنے پیارے جدا ہو جاتے ہیں وہ دوبارہ کبھی نہیں ملتےاور واپس نہیں آتے٫میں آج سوچ رہا تھا کہ جب بھی کبھی باہر سے آتا تھا تو میری والدہ اور میری بیوی کلثوم دروازے پر میرا استقبال کے لئے دروازے پر کھڑی ہوتی تھیں لیکن آج میں جاؤں گا تووہ دونوں نہیں ہیں٫وہ میری سیاست کی نذر ہوگئیں۔”میاں صاحب کو اس وقت سب سے بڑا چیلنج جس کا سامنا کرنا پڑے گا وہ معیشت کی بحالی اور مقدمات ہیں کیونکہ ملکی کی معاشی حالت اتنی قابل رشک نہیں ہے ۔بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور مہنگائی نے سفید پوش طبقے کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے ۔سب سے بڑا چیلنج مقدمات کا سامنا ہے کیونکہ مقدمات میں ضمانت ہوئی ہے نہ تو مقدمات ختم ہوئے ہیں اور ہی نااہلی ختم ہوئی ہے۔ہوسکتا ہے لیول پلاینگ فیلڈ دینے کے لئے میاں صاحب کی نااہلی کوبحال رکھا جائے کیونکہ مقتدرہ کے نزدیک بڑے میاں صاحب کی بجائے چھوٹے میاں صاحب زیادہ قابل قبول ہیں۔
پروفیسر قیصر عباس!

یہودیت ،عیسائیت اور اسلام، پروفیسر قیصر عباس!

Urdu column , October and Pakistani politics

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں