نشستن، گفتن، خردن ، برخستن! پروفیسر قیصر عباس

نشستن، گفتن، خردن ،برخستن! پروفیسر قیصر عباس
“نشستن ٫گفتن ٫خردن ٫برخستن” فارسی کا محاورہ ہے جو 13نومبر کو سعودی عرب کے شہر ریاض میں ہونے والے اسلامی سربراہی کانفرنس اور عرب لیگ کے مشترکہ اجلاس پر صادق آتا ہے۔ان دونوں تنظیموں کا اجلاس مختلف اوقات میں ہونا تھا مگر آخر میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ دونوں تنظیموں کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے جس میں فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ کے حوالے سے ایک مشترکہ لائحہ عمل تیار کیا جائے۔عرب لیگ کے اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل حسام ذکی کے مطابق “عرب لیگ سمٹ کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ عرب ممالک بین الاقوامی منظر نامے پر جارحیت روکنے٫فلسطین اور اس کی عوام کی حمایت٫اسرائیلی قبضے کی مذمت اور اس کے جرائم کے لئے اسے جواب دہ ٹھہرانے کے سلسلے میں کسی طرح آگے بڑھیں گے”۔جب کہ دوسری طرف فلسطینی عسکریت پسند گروپ “اسلامی جہاد”جسے کئی مغربی ممالک نے حماس کی طرح دہشتگرد تنظیم قرار دے رکھا ہے ٫ نے جمعہ کے روز یعنی اس اجلاس کے منعقد ہونے سے ایک روز پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اسے اس اجلاس سے “کوئی توقع” نہیں ہے۔اس گروپ نے اجلاس بلانے میں تاخیر پر عرب رہنماؤں پر تنقید کی ۔اسلامی جہاد کے ڈپٹی سیکرٹری محمد الہندی نے بیروت میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا “ہم ایسے اجلاسوں سے امیدیں نہیں لگا رہے ٫کیونکہ ہم ان کے نتائج کئی سالوں سے دیکھ رہے ہیں۔”جب کہ حماس کے سنئیر رہنما اور ترجمان اسامہ حمدان کا کہنا۔ تھا”عرب اور مسلم رہنماؤں کو تین باتوں ٫نکات پر توجہ دینی چاہئے پہلی فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے حملے اور فلسطینیوں کی نسل کشی رکنی چاہیے ٫دوسرا غزہ میں انسانی امداد ٫طبی امداد اور ایندھن بھیجا جائے تیسرا مسئلہ فلسطین صرف فلسطینیوں کے حقوق کی بنیاد پر حل کیا جانا چاہئے ۔”ان کا مزید کہنا تھا “کہ امن عمل تین دہائیوں سے اسرائیلی ضروریات پر مرکوز رہا اس لئے امن ناکام رہا ہے۔”انہوں نے مطالبہ کیا کہ” اسلامی ممالک اسرائیل سے اپنے تعلقات منقطع کریں۔” اجلاس میں شامل مختلف ممالک کے سربراہان نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اجلاس کے شرکاء کے سامنے اپنی تجاویز اور آراء پیش کی مثلآ سعودی عرب٫ کویت اور قطر نے غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا جب کہ ترکی اور انڈونیشیا نے اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کی عالمی عدالت میں جانے کی تجویز دی۔اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا اور کہا کہ “فوجی آپریشن بند اور غزہ کا محاصرہ ختم کیا جائے.” ان کا مزید کہنا تھا “کہ انسانی امداد کی رسائی دی جائے غاصب قوت فلسطینیوں کے خلاف جرائم کی ذمہ دار ہے۔”فلسطینی صدر محمود عباس نے اجلاس سے خطاب کہا “فلسطینی عوام اسرائیل کی بدترین جارحیت کا بہادری سے سامنا کر رہے ہیں٫اسرائیلی وحشیانہ بمباری سے ہزاروں فلسطینی شہید اور زخمی ہوچکے ہیں۔”انہوں نے کہا اسرائیل کو اپنی فوجی طاقت کا گھمنڈ ہے کہ وہ ہمیں ختم کر دے گا٫اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے٫میرا دل ہزاروں معصوم بچوں کے قتل پر افسردہ ہے٫ اسرائیلی جارح فورسز کو جنگی جرائم کی عالمی عدالت میں لایا جائے۔”پاکستانی نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے اپنے خطاب میں مطالبہ کیا کہ “عالمی برادری اسرائیلی جنگی جرائم کے لئے اس کا محاسبہ کرے ٫اسرائیل کے مظالم اور ریاستی دہشت گردی کی اس مہم کو روکا جائے۔”ایرانی صدر ابراہیم رئیسی اس اجلاس میں سب سے زیادہ توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے کیونکہ عالم اسلام میں اس وقت ایران وہ واحد اسلامی ملک ہےجو کھل کر ہر سطح پر اسرائیل اور اس کے ہمنواؤں کے خلاف بات کر رہا ہے ۔بہت سے عرب سیاست دان ٫صحافی اور سماجی کارکن اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ او آئی سی کے ہنگامی اجلاس میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی تقریر سب سے مضبوط اور سب سے زیادہ سنجیدہ اور درست تھی۔بہرحال اس مشترکہ سربراہی اجلاس میں اسرائیل کے حق دفاع کے دعوے اور استدلال کو مسترد کرتے ہوئے فوری جنگ بندی اور امدادی کارروائیوں کا مطالبہ کیا ٫مشترکہ اعلامیہ میں اس بات کا بھی مطالبہ کیا کہ غزہ کا محاصرہ ختم کیا جائے٫انسانی امداد کی اجازت دی جائے اور اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمدات روکی جائے۔موجودہ صورتحال میں مذکورہ بالا اجلاس انتہائی اہمیت کا حامل تھا لیکن اعلامیہ کی شکل میں اس کا جو نتیجہ نکلا ہے اس سے صہیونی ریاست کو کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ اس کے ہفتے بعد اسرائیلی فضائیہ نے ایک سکول پر بمباری ہے جس سے کم ازکم 200 فلسطینی شہید ہوگئے ہیں۔ اسرائیل کے حوالے سے دو ٹوک موقف اپنایا جانا چاہئے تھا ۔وہ ممالک جن کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں منقطع کرتے٫ تجارتی لین دین ختم کیاجاتا صرف اسرائیل ہی نہیں بلکہ ان ممالک کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے نظر ثانی کی جاتی جو کہ اسرائیل کی پشت پر کھڑے ہیں تو اس اجلاس کا نتیجہ یقیناً مثبت نکلتا اگرچہ ہمارے اسلامی ممالک حق پر ہیں مگر اس باوجود ان کے موقف میں یکسوئی نہیں پائی جاتی جب کہ غاصب اور اسلام مخالف قوتیں باطل پر ہونے کے باوجود یکسو ہیں اس لئے اس اجلاس پر فارسی کا محاورہ صادق آتا ہے نشستن٫گفتن ٫خردن٫برخرستن۔
Urdu column, news in urdu
پروفیسر قیصر عباس!

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں