حوصلہ افزائی باہمت انسان اور بیماری، یاسر دانیال صابری

حوصلہ افزائی باہمت انسان اور بیماری، یاسر دانیال صابری
پاکستان سمیت دنیا بھر میں بیماری ایک عالمگیر نام سے پہچانا جاتا ہے ۔ جس سے لوگ ڈرتے رہتے ہیں ۔حوصلہ مند لڑتے رہتے ہیں ۔بیماری زندگی کا حصہ ہے ۔بیماری اللہ کی طرف سے آزمائش بھی ہے اور امتحان بھی, بس انسان کو شاکر ہونا چاہئے ۔جب میں بیمار ہوا تو میرا حوصلہ پست ہونا شروع ہوا تھا کیونکہ حکیم صاحب نے جن چیزوں سے پرہیز کا مشورہ دیا تھا وہ سامنے ہوتے تھے مگر توجہ پرہیز کے چیزوں کے اوپر جاتا مگر وہ چیزیں کم مقدار میں میرے پاس موجود ہوتے تھے۔بلآخر آپرشن کا تاریخ مقرر ہوا ۔بیماری !میرا پیتہ میں پھتری تھی۔میں اتوار کے دن ایڈمٹ رہا پیر کے دن ڈیجیٹل کمرہ مشین میں ڈالا گیا ۔ بہوشی دینی والی ڈاکٹر پوچھ رہی تھی ۔یاسر بیٹا آپ کو شگر ۔بلڈپیشر ۔کھانسی تو نہیں ہے میں نے نفی میں جواب دیا ،ایسے میں ایک فارم سائن کے لئے لایا گیا۔تو اس میں کوندہ گیا تھا اس آپرشن کے دوران آپ کو موت لاحق ہو سکتی ہے ڈاکٹر اور عملہ ذمہدار نہیں ہوبگے۔ ۔آپ نے اپنے رازداری میں یہ آپرشن کروانا ہے ۔خیر عجیب سا لگا ۔مگر قلم اٹھایا سائن کر دیا، جہاں تک شناختی کارڈ نمبر بھی لکھ ڈالا۔جب زندگی بخش ہو تو اللہ کی ذات قادر ہے ۔بس اللہ پر توکل رکھا۔یہ سارا کھیل حوصلے کا تھا۔
ایسے میں دائیں بازوں میں “کانولہ” پاس کیا گیا ۔باتوں باتوں میں بہویشی کے عالم میں چلا گیا ۔بیس منٹ آپریشن کے لئے لگے ، مگر ہوش میں لانے کے لئے بہت جہد مسلسل کوشش کیا گیا کیونکہ میرا چیسٹ بند تھا۔کھانسی بلغم بھی تھا۔مجھے ایسا لگ رہا تھا اور میں پر امید تھا دل بڑا سکون طلب ہوا تھا مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ میری زندگی کے سانسیں کچھ دیر بعد ختم ہونے والی ہے لیکن حوصلہ پست نہیں کیا ۔میں پر امید تھا بس ایک نہ ایک دن اس دنیا سے کوچ کر جانا ہے ۔مجھے میرے دو بیٹوں اور بیٹی کا فکر بھی ستا رہا تھا مگر اللہ رب عزت نے چاہا میں بے ہوشی کے عالم سے بیدار ہوا تو میرے نام سے آپرشن تھٹر گونچ رہا تھا ۔یاسر یاسر یاسر ۔۔۔۔خیر نیم ہوش میں واپس آیا دل دھڑکتا اور سانسیں چلتی رہی۔ چار گھنٹوں بعد جب مکمل ہوش میں آیا تو میرا اپنا بھائی عزیزوں اور دوستوں کو ساتھ میں دیکھا اور بھی ہمت وحوصلہ بڑھ گیا ۔ایسے میں دادا جان سابق اپوزشن لیڈر کپیٹن ر محمد شفیع عیادت کے لئے تشریف فرما ہوئے۔
اپنی زندگی سے سبق سکھ کر دوسروں تک پہچننا بھی عادت ہے ۔
بیماری کی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک پیدائشی، دوسرا عدم توجہ صحت ،سبب بیماری کا آپ تک آسانی سے رسائی حاصل کر لیتی ہے ۔ہمیں اپنے اردگرد ماحول کو صاف ستھرا رکھنا چاہے ۔صاف پانی کا گلگت بلتستان میں بہت بحران ہے جس کے ساتھ پھتر ہم پی رہے ہوتے ہیں اور جسم کے مختلف کونوں میں پھنستے ہیں یوں مختلف بیماریاں وجود میں آتی ہے ۔انسان کا حوصلہ پیش آنے والی تمام رکاوٹوں کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے انسان تاریخی اور فطری لحاظ سے بڑا حوصلہ مند ہے ۔انسان کو چاہے کہ بیماروں کی عیادت کے لئے جائے کرہمارے معاشرے میں ڈپریشن کی ایک بہت بڑی وجہ حوصلہ افزائی کا یہ فقدان بھی ہے جس کے نتیجے میں یا تو انسان بیگانگی کا شکار ہو جاتا ہے یا اس کے مزاج میں غصہ بڑھ جاتا ہے، خرابیوں کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور معاشرہ رفتہ رفتہ عدم توازن کا شکار ہو جاتا ہے۔
اگر تھوڑی سی توجہ دی جائے تو یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔ ہمارے اردگرد بہت سارے لوگ ہیں جن کے قریب سے ہم ایسے گزر جاتے ہیں جیسے کہ ان کا کوئی وجود ہی نہ ہو حالانکہ وہ سب کسی نہ کسی درجہ کی کوئی سروس ہمیں فراہم کر رہے ہوتے ہیں۔ ایک ذرا سی تحسین اور شکریہ ان کا حوصلہ بڑھا سکتا ہے مگر ہم اپنی ہی دنیا میں گم اس بات سے قطعی ناواقف رہتے ہیں کہ وہ سب ہمارے لئے کتنے اہم ہیں۔ ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کیجیے کیونکہ ایسا کرنا ان میں ایک نئی روح پھونک دے گا۔ شکر گزاری کے یہ جذبات نہ صرف آپ کو اندر سے مضبوط کر دیں گے بلکہ معاشرے میں دوسروں کے دل میں آپ کے لیے محبت اور احترام بھی پیدا کر دیں گے۔ ایسا کیجیے تاکہ معاشرہ زندگی کے حسن سے مزین ہو جائے اور یہ بھی مان لیجیے کہ حوصلہ افزائی کی ضرورت آپ کو بھی ہے۔دوسروں کو بھی ہے ۔جب کوئی بیمار بندہ پریشان رہتا ہے تو اس کو دلاسہ اور ہمت والی باتیں کیا کریں اور آپ کی حوصلہ افزائی اس کے لئے بہت اہمیت کے حامل ہے۔
آج ہم میں سے اکثر لوگ آپس میں طنز تو بہت کرتے ہیں لیکن حوصلہ افزائی بہت کم اسی طرح چاپلوسی اور بے جا تعریف تو بہت کرتے ہیں لیکن صحیح رہنمائی بہت کم
حوصلہ افزائی اور دوسروں کے تئیں ہمدردی کے تعلق سے کس قدر بخیل ثابت ہو رہے ہیں ہم لوگ کہ دوسروں کی ہمت بڑھانے اور ان کی صحیح رہنمائی کرنے کے لئے ہمارے پاس الفاظ ہی نہیں، وقت ہی نہیں، اور سب سے بڑی چیز جذبہ ہی نہیں حالانکہ ہم سب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور ہم سب کو اکثر یہ احساس ہوتا ہے کہ ہمیں کوئی سراہے، ہمارے حوصلے کو بڑھائے، ہمارے جذبے کو ہماری ہمت کو Boost up کرے اسے انرجی دے اسے صحیح سمت دے لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اگر ہم اس پار کھڑے ہیں تو ہم ہی اُس پار بھی ہیں ہمیں اگر کسی کے حوصلوں کی ضرورت ہے تو کسی کو ہمارے حوصلوں کی بھی ضرورت ہے ہمیں اس مثبت سوچ کو بیدار کرنا ہوگا پروان چڑھانا ہوگا کہ ہم لوگوں کی حوصلہ افزائی کریں
کامیابی کی بلندیوں کو چھونے کے لیے بہت سی ناکامیوں اور الجھنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ٹھوکروں کی تمام سرحدیں پار کرنی پڑتی ہیں ۔ بہت سے لوگ منزل کے اکثر بہت قریب تر ہو کر ہار مان جاتے ہیں اُنہیں لگتا ہے اُنہوں نے اتنی محنت بے کار کی ۔شاید اُنکے حصے میں ناکامی کے سوا کچھ نہیں ، ایسا نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے یقین کی طاقت کو کمزور کر دیتے ہیں ، ایمان ڈگمگا جاتا ہے ۔ جب کہ وہ بھول جاتے ہیں کہ جتنی بڑی منزل اُتنی بڑی آزمائش اور قربانیاں ۔ خدا بندے کے جنون اور جذبے کو دیکھ کر اُسکی آزمائشیں اسلیے بڑھا دیتا ہے کیونکہ وہ صرف اُسکا صبر، اُسکا ضبط اور اسکا یقین آزمانا چاہتا ہے ،اور ہم نادان اکژ اپنے کم فہمی کی بدولت یہ سمجھتے ہیں کہ شاید خدا ہی نہیں چاہتا۔ ایسا نہیں ہے ،جبکہ خدا نے اپنے کلام میں خود فرمایا ہے کہ ـ “انسان کے لیے وہ ہی سب کچھ ہے جس کے لیے اُس نے کوشش کی ہے ۔ـ”پھر کیسے وہ انسان کو اُسکی محنت اور کاوشوں کا صلہ نہیں دے گا۔کچھ رکاوٹیں انسان کو بہت کچھ سکھانے ، مضبوط کرنے کے لیے آتی ہیں ، یقین کی طاقت کو پختہ کرنے آتی ہیں اور ہر کام میں اللہ کی مصلحت ہوتی ہے ۔ ساری کہانی اور کھیل یقین کا ہوتاہے ۔ ہماری زندگی میں کچھ بھی پانے کھونے کا انحصار ہمارے یقین پر ہے ۔ کبھی ہار نہیں ماننی چاہیے ،چاہے کتنے ہی پیچ کھانے پڑیں عزم ٹوٹنے نہیں چاہیے
حوصلہ افزائی زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے اسی طرح ضروری ہے جس طرح گاڑی کے لیے پیٹرول۔ حوصلہ افزائی کے لیے کہے گئے دو بول انسان کو وہ کچھ حاصل کرنے کی طاقت دیتے ہیں جس کے بارے میں پہلے کبھی سوچا تک نہیں ہوتا۔آپ نے خود کو بھی بارہا آزمایا ہوگا کہ شاباش اور حوصلہ افزائی سے جوش و خروش کا جو کرنٹ آپ کے اندر دوڑتا ہے وہ بہتر سے بہتر کی جستجو میں لگادیتا ہے۔مشہور ماہر نفسیات ولیم جیمز کاتجزیہ ہے کہ انسان کی فطری خواہش ہے کہ اس کی تعریف کی جائے، اس کی حوصلہ افزائی کی جائے اور اسے سراہا جائے۔ لوگ وہ کام زیادہ شوق سے کرتے ہیں جس کی دوسرے تعریف کردیں۔ تعریف اور حوصلہ افزائی سے انسان اچھا رویہ اختیار کرتا ہے، اس کی خود اعتمادی بھی بحال ہوتی ہے اور تعریف کرنے والے سے اس کا تعلق بھی بہتر ہوتا ہے۔
بہت کم لوگ اتنے اعلیٰ ظرف ہوتے ہیں کہ دوسروں کو شاباشی دینے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ نہ جانے کیوں ہم کسی کی تعریف کرنے کو نقصان دہ سمجھتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ حسد بھی ہوسکتی ہے، کوئی ہم سے آگے کیوں نکل گیا، یہ بات ہم سے ہضم نہیں ہوتی۔ اس طرح کے طرزِ عمل سے ہمارا ہی نقصان ہے۔ اس سے لوگوں کے دلوں میں ہماری شخصیت کا اچھا تاثر پیدا نہیں ہوتا۔ایسے رویے سے پرہیز کریں اور اپنے اندر دوسروں کے اچھے کاموں پر ان کی حوصلہ افزائی کرنے کا جذبہ پیدا کریں.حوصلہ افزائی زندگی کے ہر شعبے میں کامیابی کے لئے سمت کا تعین اور راہنمائی سے انسان اپنی منزل کو پاتا ہے۔وسلام
Urdu column, Motivation Between Man and Disease

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں