نامکمل ایوان! پرفیسر قیصر عباس

urdu column, column in urdu, incomplete parliament house

پاکستان کی پارلیمنٹ دو ایوانوں پر مشتمل ہے
پاکستان کی پارلیمنٹ دو ایوانوں پر مشتمل ہے ایک ایوان کانام قومی اسمبلی ہے جس میں عوام کے نمائندے براہ راست عوام سے ووٹ حاصل کرنے کے بعد اس ایوان کے رکن بنتے ہیں ۔جب کہ دوسرے ایوان کا نام سینیٹ ہے اور سینیٹ کو ایوان بالا بھی کہا جاتا ہے۔سیاسیات کے طالب علم اس بات سے آگاہ ہیں کہ قومی اسمبلی میں آبادی کے مطابق صوبوں کی نمائندگی ہے یعنی جس صوبے کی آبادی زیادہ ہے اس کی قومی اسمبلی میں بھی زیادہ نشستیں ہیں اور جس صوبے کی آبادی کم ہے اس کی قومی اسمبلی میں بھی نشستیں کم ہیں یہی وجہ ہے کہ پنجاب کی قومی اسمبلی میں نشستیں زیادہ ہیں جب کہ بلوچستان کی نشستیں کم ہیں۔اگر ایوان بالا کی بات کی جائے تو اس ایوان میں تمام صوبوں کو برابر نمائندگی دی گئی ہے تاکہ وفاقی نظام میں وفاق کی کوئی اکائی بھی قانون سازی میں من مانی نہ کر سکے۔چونکہ سینیٹ صوبوں کی نمائندگی کرتا ہے اس لئے سوائے وفاقی دارالحکومت کے چار سینیٹرز کے باقی تمام سینیٹرز کو ان کی متعلقہ صوبائی اسمبلیاں ہی منتخب کرتیں ہیں۔پاکستان میں جب ایک سینیٹر منتخب ہوتا ہے تو وہ چھ سال بعد ریٹائرڈ ہوجاتا ہے ۔ہر تین سال بعد اس کے ایک تہائی ارکان ریٹائرڈ ہوتے ہیں اور پھر سے اگر منتخب ہو جائیں تو اگلے چھ سال تک وہ اس ایوان کی رکنیت حاصل کر لیتے ہیں۔یہ ایوان برخاست نہیں ہوتا اور اس طرح اس کا تسلسل قائم رہتا ہے اور وہ سیاست دان جن کا اپنی سیاسی پارٹیوں میں اثر ورسوخ پایا جاتا ہے وہ مسلسل اس ایوان کے رکن منتخب ہوتے رہتے ہیں۔پاکستانی پارلیمنٹ کا ایوان بالا جہاں قانون سازی میں اہم کردار ادا کرتا ہے وہی وفاقی کابینہ میں بھی اس کی نمائندگی ہوتی ہے اور ملک کے آئینی سربراہ یعنی صدر کے انتخاب میں بھی یہ ایوان اپنا حصہ ڈالتا ہے۔اب 2اپریل2024ء کو سینیٹ کے ایک تہائی ارکان کا انتخاب ہوا ہے ۔اس انتخاب میں سب سے زیادہ نشستیں پیپلز پارٹی نے حاصل کی ہیں ۔سب سے حیرت زدہ بات یہ ہے کہ بلوچستان سے گیارہ سنیٹرز بلا مقابلہ ہی منتخب ہوگئے ہیں ۔سابق چئیرمن سینیٹ صادق سنجرانی ایک بار پھر سے سنیٹر منتخب ہو گئے ہیں جب کہ سابق نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ بھی ایک بار پھر سے ایوان بالا میں پہنچ گئے ہیں۔ایک طرف بالکل نئے چہرے ایوان کی زینت بنے ہیں ان نئے چہروں میں
سابق نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی ٫ایمل ولی خان ٫حامد خان ٫ناصر بٹ اور علامہ راجہ ناصر عباس جعفری شامل ہیں۔جب کہ اس دفعہ بہت سے پرانے پارلیمنٹیرینز اپنی اپنی جماعت سے ٹکٹ کے حصول میں ناکام رہے ہیں جس کی وجہ سے وہ ایوان بالا تک رسائی حاصل نہیں کر سکے ۔ان سیاست دانوں میں مولا بخش چانڈیو ٫رضا ربانی ٫ سعدیہ عباسی اور ولید اقبال شامل ہیں۔سابق وزیراعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی ایک بار پھر سے سینیٹر منتخب ہوئے ہیں یاد رہے وہ 8فروری2024 ءکے انتخابات میں ملتان سے قومی اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوئے ہیں مگر شنید ہے چونکہ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے معاہدے کے مطابق چئیرمین سینیٹ پیپلز پارٹی کا ہوگا اس لئے یوسف رضا گیلانی مستقبل کے چیئرمین سینیٹ ہوسکتے ہیں اس لئے انہیں اسلام آباد کی نشست سے سینیٹر منتخب کروایا گیا ہے۔اس دفعہ کراچی سے تعلق رکھنے والے فیصل واڈا ایک دفعہ پھر سے ایوان بالا کے رکن منتخب ہو گئے ہیں ۔یاد رہے 2018ءکے انتخابات میں فیصل واڈا نے موجودہ وزیراعظم شہباز شریف کو کراچی کے قومی اسمبلی کےایک حلقے سے شکست دی تھی لیکن دہری شہریت کیس میں انہیں وہ نشست چھوڑنا پڑی اس کے بعد دوبارہ تحریک انصاف کی طرف سے انہیں سینیٹر منتخب کروایا گیا مگر انہیں نااہلی کا سامنا کرنا پڑا۔اب کی دفعہ فیصل واڈا آزاد حیثیت سے سینیٹر منتخب ہوئے ہیں۔اس وقت ایوان بالا میں فیصل واڈا اور محسن نقوی طاقتور سینیٹر سمجھے جارہے ہیں کیونکہ ان کے طاقتور حلقوں سے قریبی مراسم ہیں اسی وجہ سے تو سابق وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ نے ایک شخصیت کے بارے میں برملا اظہار کرتے ہوئے کہا “نقوی صاحب کی مہربانی ہے کہ انہوں نے وزیر داخلہ بننے پر اکتفا کیا ہے وہ چاہتے تو وزیر اعظم بھی بن سکتے تھے۔”سینیٹ میں تین صوبوں کی نمائندگی موجود ہے لیکن خیبرپختونخوا کے گیارہ سینیٹرز منتخب نہیں ہوسکے کیونکہ مخصوص نشستوں پر کامیاب ہونے والے ممبرانِ صوبائی اسمبلی سے حلف نہیں لیا گیا جس کی وجہ سے خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے سینیٹ کے امید واروں کے الیکشن کو ملتوی کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے ابھی تک ایوان بالا نامکمل ہے۔

اسکردو امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان بلتستان ڈویژن کی جانب سے عید گاہ سندوس تا یادگار شہدا سکردو تک ریلی کا انعقاد

شگر چھورکاہ ویلفیئر ارگنائزیشن کے زیر انتظام خواتین کو باعزت روزگار کے لیے ابتدائی مرحلے میں پانچ مستحق خواتین میں سلائی مشین تقسیم کی گئی

urdu column, column in urdu, incomplete parliament house

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں