منشور کی گمشدگی! پروفسر قیصر عباس

منشور کی گمشدگی! پروفسر قیصر عباس
اپنے گزشتہ کالمز میں بھی میں تواتر سے لکھتا آرہا ہوں کہ جمہوریت کے لئے انتخابات ناگزیر ہیں ۔ماہرین سیاسیات نے جمہوریت کی کامیابی کے لئے جہاں بہت سے شرائط رکھی ہیں وہی ایک لازمی شرط وقفے وقفے سے بغیر کسی رکاوٹ کے شفاف اور دھاندلی سے پاک انتخابات بھی ہیں ۔بڑے جمہوری ممالک جن کی ترقی پزیر ممالک پیروی کرتے ہیں وہاں حالت جنگ میں بھی انتخابات ہوتے رہے ہیں ۔جب سیاسی جماعتیں انتخابات کے لئے میدان میں اترتی ہیں تو سب سے پہلے جس چیز کا اعلان کیا جاتا ہے وہ انتخابی منشور ہوتا ہے ۔انتخابی منشور دراصل ایسے وعدےہیں جو کہ سیاسی جماعتیں دوران انتخاب اپنے ووٹرز سے کرتے ہیں کہ اگر آپ نے ووٹ کے ذریعے ہمیں منتخب کروایا تو ہم اقتدار میں آنے کے بعد جو آپ سے وعدے کر رہے ہیں ان پر پوری طرح عمل کریں گے ۔منشور کی سب سے بڑی مثال اگر درکار ہو تو متحدہ ہندوستان کے آخری انتخابات کو زیر بحث لایا جا سکتا ہے اگرچہ 1946-1945ء کے انتخابات میں بہت سے صوبائی جماعتوں نے بھی حصہ لیا مگر اصل مقابلہ دو حریف جماعتوں آل انڈیا مسلم لیگ اور انڈین نیشنل کانگریس میں تھا ۔مسلم لیگ کا اس انتخاب میں منشور یہ تھا کہ اگر مسلمان مسلم لیگ کو ووٹ دیں گے تو انہیں ایک آزاد ریاست ملے گی اور انگریزوں اور ہندوؤں کی غلامی سے چھٹکارا ملے گا ۔جب کہ کانگریس کے منشور میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ ہم ہندوستان کو دو ٹکڑے نہیں ہونے دیں گے اور متحدہ ہندوستان کو انگریزوں سے آزاد کروائیں گے ۔دونوں جماعتوں نے اپنے اپنے منشور کے تحت انتخاب لڑا اور پھر اپنے ووٹرز سے ووٹ حاصل کئے ۔1970ء کے عام انتخابات پاکستان کے پہلے اور متحدہ پاکستان کے آخری انتخابات تھے اس کے بعد پاکستان دولخت ہوگیا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کے نام سے معرض وجود میں آیا۔1970ء کے انتخابات شیخ مجیب الرحمٰن نے اپنے مشہور زمانہ “چھ نکات “کومنشور بنا کر لڑے ۔ان چھ نکات میں “فیڈریشن”(وفاق) کی بجائے” کنفیڈریشن” (نیم وفاق ) پر زور دیا گیا تھا۔جب کہ بھٹو صاحب کی پیپلز پارٹی نے ” روٹی ٫کپڑا اور مکان ” کا نعرہ لگا کر انتخابات میں حصہ لیا۔بہرحال جو کچھ ان انتخابات کے بعد ہوا وہ بھی تاریخ میں موجود ہے۔ان واقعات کو یہاں زیر بحث لانا مقصد نہیں ہے۔جب مشرقی پاکستان علیحدہ ہوا اور مغربی پاکستان میں اقتدار بھٹو صاحب کے حوالے کیا گیا بھٹو صاحب پہلے سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنے اس کے بعد صدر پاکستان اور جب 1973ءکا آئین نافذ ہوا تو ذوالفقار علی بھٹو نے صدر کا عہدہ چھوڑ کر وزیراعظم کا منصب سنبھال لیا اور اپنی جگہ چوہدری فضل الٰہی کو صدر مملکت بنا دیا۔لیکن جس نعرے کو انتخابی منشور بنایا بھٹو صاحب عملی طور پر ان وعدوں پر عمل کرنے سے قاصر رہے۔اگرچہ “مرد مومن”نے ایک جمہوری حکومت کا تختہ الٹا اور فوجی وردی سمیت کم وبیش گیارہ سال تک اس ملک پر مسلط رہے ۔ان گیارہ سالوں میں موصوف نے براہ راست کسی انتخاب میں حصہ نہ لیا البتہ اپنے ناجائز اور غصب شدہ اقتدار کو قانونی شکل میں ڈھالنے کے لئے صدارتی ریفرنڈم کی چھتری تلے پناہ ضرور لی ریفرنڈم میں موقف اپنایا گیا کہ اگر آپ اسلامی نظام چاہتے ہیں تو ضیاء الحق کو ووٹ دیں ۔اب ایک ایسے ملک کے باسی جو ملک بنا ہی اسلام کے نام پہ تھا کیسے ریفرنڈم میں “مرد مومن”کی حمایت نہ کرتے؟ اسی ریفرنڈم کی بدولت ضیاء الحق صدر پاکستان تو بن گئے مگر اسلامی نظام آنا تھا نا ہی آیا۔اس کے بعد تمام سیاسی جماعتوں نے انتخابات سے قبل اپنا منشور لازمی پیش کیا جس کا مقصد یہ تھا کہ جب وہ جماعت اقتدار میں آئے گی تو اس پر عملدرآمد کرے گی ۔مگر 2018ءتک کے انتخابات تک جو بھی پارٹی اقتدار میں آئی اس نے ہمیشہ اپنے انتخابی منشور سے روگردانی کی۔اب 2024 ء کے انتخابات کی آمد آمد ہے ۔تمام سیاسی جماعتیں اپنی انتخابی مہم چلا رہی ہیں سوائے تحریک انصاف کے ۔مگر ابھی تک کسی بھی سیاسی جماعت نے اپنا انتخابی منشور پیش ہی نہیں کیا جلسے جلوسوں میں بھی صرف ذاتیات پر ہی باتیں کی جارہی ہیں۔عوام کے مسائل کا مداوا مشکل لگ رہا ہے کیونکہ ہر سیاسی لیڈر کی خواہش ہے کہ وہ کسی طرح اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہو۔لیکن اس کے بعد عوامی مسائل کا کیا حل ہے کوئی نہیں جانتا؟نئی نویلی جماعت کے صدر عبدالعلیم خان نے لاہور میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ” تین سو بجلی کی یونٹس استعمال کرنے والے صارف کو بجلی مفت دی جائے گی”۔ بالکل ایسی گفتگو پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین جناب بلاول بھٹو زرداری صاحب بھی کر چکے ہیں۔اگر بجلی فری دی جائے گی تو کیا خسارہ ریاست برداشت کرے گی اور کب تک ایسے کرے گی؟ہم ایک غلط فہمی کا شکار ہیں کہ مغربی فلاحی ریاستیں اپنے شہریوں کو تعلیم ٫صحت خوراک اور دیگر سہولتیں انتہائی مناسب قمیت پر یا کم قمیت پر دیں رہی ہیں لیکن دوسرا پہلو ہم بھول جاتے ہیں کہ اگر مغربی فلاحی ریاستیں ایسا کر رہی ہیں تو وہاں ٹیکس نہ دینا سب سے بڑا جرم تصور کیا جاتا ہے۔جب ہم ریاست کو کچھ ادائیگی کے بنا مغرب جیسی سہولیات مانگے تو پھر ہم سے زیادہ بے وقوف کوئی نہیں پے۔اگرچے وقتی طور پر عوامی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے ہم بلند بانگ دعوے تو کر لیں گے لیکن جب حقیقت ہمارے سامنے آئے گی تو پھر ہمیں اپنے ہی کئے ہوئے وعدوں سے رجوع کرنا پڑے گا۔پچھلے انتخابات میں سابق وزیراعظم جناب عمران خان صاحب نے بھی کچھ ایسے ہی دعوے کئے جس میں پچاس لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ شامل تھا مگر جب خان صاحب اقتدار میں آئے تو انہیں سمجھ آئی کہ ملک کی معاشی حالت اس کی متحمل ہی نہیں ہو سکتی بعد میں خان صاحب اور ان کے وزراء اپنے دعوؤں کی مختلف توجیہات و تاویلات بیان کرتے رہے اس لئے تمام سیاسی جماعتوں کے لیڈران سے گزارش ہے کہ اس مجبور و بے کس قوم کو اتنے ہی خواب دکھائیں جتنے آپ پورے کر سکتے ہیں ۔ورنہ آپ کا منشور بھی اقتدار میں آنے کے بعد کہیں گم ہو جائے گا۔
پروفیسر قیصر عباس
urdu column, column in urdu disappearance of the manifesto!

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں