پگ ! پروفیسر قیصر عباس

پگ ! پروفیسر قیصر عباس
8فروری کے عام انتخابات کے بعد دو بڑے صوبوں یعنی پنجاب اور سندھ کے وزراء اعلیٰ کا انتخاب ہوچکا ہے۔چند روز قبل یعنی 26فروری کو صوبہ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کی پگ مریم نواز شریف کے سر پر رکھ دی گئی ہے جب کہ سندھ سے ایک بار پھر قرعہ فال مراد علی شاہ کے نام ہی نکلا ہے۔یوں مراد علی شاہ نے بطور وزیر اعلیٰ “ہیٹرک” کی ہے جب کہ مریم نواز پاکستان کی تاریخ میں پہلی خاتون وزیر اعلیٰ بنی ہیں۔پنجاب کے پہلے وزیر اعلیٰ نواب افتخار حسین خان ممدوٹ جب کہ اب تک کی آخری وزیر اعلیٰ کا نام مریم نواز شریف ہے۔اس سے دو دن پہلے سپیکر پنجاب اسمبلی اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب ہوا ۔سابق سپیکر سبطین خان نے سب سے پہلے منتخب اراکین پنجاب اسمبلی سے حلف لیا ۔سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب” ون ٹو ون ” ہوا۔مسلم لیگ نون کی طرف سے ملک احمد خان اور احمد خان بھچڑ سنی اتحاد کونسل کی طرف سے سپیکر کے امیدوار تھے ۔ڈپٹی سپیکر کے لئے بھی ون ٹو ون مقابلہ ہوا۔مسلم لیگ کی طرف سے ملک ظہیر اقبال جب کہ سنی اتحاد کونسل کی طرف سے معین ریاض میں مقابلہ تھا۔سپیکر کے انتخابات میں 322 اراکین اسمبلی نے حصہ لیا ۔ملک احمد خان نے 224 ووٹ حاصل کئے جب کہ سنی اتحاد کونسل کے احمد خان بھچڑ نے 96 ووٹ حاصل کئے ۔ڈپٹی سپیکر کے انتخاب میں مسلم لیگ نون کے ملک ظہیر اقبال نے 220ووٹ حاصل کئے جب کہ سنی اتحاد کونسل کے معین ریاض نے 103 ووٹ حاصل کئے۔یاد رہے سنی اتحاد کونسل میں دراصل تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آذاد امیدوار شامل ہیں۔سپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کے بعد 27فروری بروز سوموار کو وزیر اعلیٰ کا انتخاب ہوا۔وزارت اعلیٰ کے انتخاب میں بدمزگی پیدا ہوئی ۔کیونکہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آذاد امیدواروں جنہوں نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی تھی ان کے وزیر اعلیٰ کے امیدوار لاہور سے صوبائی اسمبلی کے نو منتخب ایم پی اے میاں اسلم اقبال تھے جو کہ نو مئی کے واقعات کے بعد سے روپوش تھے اسی روپوشی میں انہوں نے الیکشن لڑا اور پھر جیت بھی گئے مگر پنجاب پولیس سے گرفتاری کے ڈر سے نہ تو وہ اسمبلی آسکے اور نہ ہی بطور ایم ۔پی۔ اے حلف برداری میں شرکت کر سکے ۔تب سنی اتحاد کونسل نے اپنی حکمت عملی کو تبدیل کیا اور رانا آفتاب سنی اتحاد کونسل کی طرف سے وزارت اعلیٰ کے امیدوار بنائے گئے ۔انتخاب ہوا تو مریم نواز نے 220ووٹ حاصل کئے جب” سنی اتحاد”مطلب ” تحریک انصاف” نے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کا بائیکاٹ کیا۔اس طرح مریم نواز 220ووٹ لیکر پہلی خاتون وزیر اعلیٰ منتخب ہوگئی ہیں۔لیکن جمہوری رویوں کا اس سارے انتخاب میں فقدان پایا گیا۔کیونکہ اپوزیشن کا سارے جمہوری پراسسز کا بائیکاٹ کرنا پنجاب کے لئے نیک فال نہیں ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا اپوزیشن اپنا بائیکاٹ جاری رکھے گی؟ یا پھر اسمبلی میں موجود رہ کر اپنی طاقت کا اظہار کرتی رہے گی؟کیونکہ جمہوریت میں جہاں حزب اقتدار اور قائد ایوان کا اہم کردار ہوتا ہے وہی حزب اختلاف اور قائد حزب اختلاف کا بھی کردار نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔کیونکہ حزب اختلاف حکومت کے ہر غلط فیصلے کے سامنے دیوار بن جاتی ہے اور حکومتی اقدامات پر کڑی نظر رکھتی ہے۔مریم بی بی چونکہ پہلی دفعہ کسی عوامی عہدے پر براجمان ہوئی ہیں اس لئے انہیں بڑی سمجھ داری اور دانش مندی سے صوبہ کو چلانا ہوگا کیونکہ یہ صوبہ بارہ کروڑ نفوس پر مشتمل ہے اور دوسرا مسلم لیگ نون کا ایک بڑا ووٹ بنک بھی اسی صوبے سے منسلک ہے ۔اس صوبے میں پیپلز پارٹی کا خلاء پی ٹی آئی نے پر کیا ہے بلکہ 2018ء کے انتخابات میں تحریک انصاف یہاں حکومت بنانے میں بھی کامیاب ہوگئی تھی۔مریم بی بی کے سامنے تحریک انصاف کی صورت میں جہاں ایک” تگڑی اپوزیشن “ہوگی وہاں مختلف مسائل بھی ہونگے جنہیں حل کرنا لازمی ہوگا ۔ایک “سہولت” بہرحال مریم بی بی کو حاصل ہے وہ یہ ہے کہ مرکز میں ان کے چچا یعنی میاں شہباز شریف کی حکومت ہے جو کہ ایک پلس پوائنٹ ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ مریم بی بی پنجاب کی پہلی وزیر اعلیٰ تو بن گئی ہیں کیا وہ کامیاب وزیر اعلیٰ بھی بن پائے گی یا نہیں؟ ابتداء تو ان کے لئے اتنی حوصلہ افزاء نہیں کیونکہ جس طرح اپوزیشن نے وزارت اعلیٰ کے انتخاب میں بائیکاٹ کیا وہ نیک شگون نہیں ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے مریم بی بی کس طرح اپوزیشن کو ڈیل کرتی ہیں؟ اور کس طرح مسائل حل کرتی ہیں؟ یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
پروفیسر قیصر عباس! urdu column, column in urdu,

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں