بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا , محمد رضا ربانی

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا , محمد رضا ربانی
کس کے وہم وگمان میں تھا کہ فلک بوس پہاڑوں کی سرزمین میں پیدا ہونے والے بلند فکر، ،نابغہ روزگار،داعئ اتحاد بین المسلمین، مفسر قرآن اور بلند
کردار و عمل کے مالک، قوم و ملت کے لیے گرانقدر خدمات سرانجام دینے والے تمام چاہنے والوں کو ایک دن اشکبار اور غمگین چھوڑ کر کوچ کر جائیں گے۔اسم بامسمی محسن ملت علامہ شیخ محسن علی نجفی کو مرحوم لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آ رہا ہے۔ وہ رحلت کے دن تک تدریس ،تحقیق ، تالیف ،تبلیغ اورتربیت کی ذمےداری اچھی طرح نبھاتے ہوئے نو جنوری کی صبح رحلت فرما گئے۔ وہ ایک آفاقی شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی حیات کے مختلف پہلوؤں ،ملی اور قومی خدمات اور کارناموں کو مختصر مضمون میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے طالب علمی کے دوران میں صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے قلیل عرصے میں بلند مقام حاصل کیا۔ حوزہ علمیہ نجف عراق میں تحقیق پہ مشتمل ایک مستند کتاب تحریر کی، اس پر اس وقت کے مراجع عظام نے تقریظ لکھی اور ان کی صلاحیت و استعداد کےمعترف ہوئے۔ عراق جانے سے پہلے شیخ محسن علی نجفی عربی زبان پر گرفت حاصل کر چکے تھے اور عربی میں اشعار بھی لکھتے تھے ۔عراق میں آیت اللہ باقرصدر آیات اللہ خوئی جیسی علمی اور فلسفی شخصیات سےکسب فیض کرتے رہے ۔ ان کو بیک وقت علوم قران و حدیث، فلسفہ و منطق اور علوم جدید پر دسترس تھی۔ انہوں نے علم تفسیر، فلسفہ، منطق اور دیگر موضوعات پر جامع کتابیں بھی لکھی ہیں۔ شیخ محسن علی نجفی مضبوط فکر، سوچ اور مشن کے ساتھ عملی میدان میں قدم رکھنے کا عزم لے کر پاکستان آئے۔ اس وقت کے نامساعد حالات اور بے سر و سامانی کے باوجود ایمانی طاقت اور عملی طور پر اللہ پر توکل کرتے ہوئے مسلسل جدوجہد کرتے رہے ۔ وہ ملت کی با بصیرت زیرک اور نباض علمی شخصیت تھی اس لیے انہوں نے قوم و ملت کی ضروریات کا درک کرتے ہوئےآخری لمحات تک ہر میدان میں بڑی سطح پر خدمات سرانجام دیں ۔ بنیادی طور پر وہ ایک عظیم مفکر ،فلسفی اور عالم با عمل تھے ۔اس لیے انہوں نے علم کے چراغ اس طرح فروزاں کیے کہ ہزاروں شاگردوں کی تربیت کی جو اس وقت شعبہ زندگی کے مختلف میدانوں میں اس چراغ کو روشن رکھنے میں کردار ادا کر رہے ہیں۔ انہوں نے علمی میدان میں مسلمانوں کی علمی تاریخ کو پھر سے جوڑنے کی کوشش کی ،جس کے خلاف سازش کر کے مسلمانوں کو زوال کی طرف دھکیلا گیا تھا۔ مراد یہ کہ مسلمانوں کی قدیم علمی تاریخ یہ تھی کہ ایک ہی مکتب اور درسگاہ سے علم حیوانات، نباتات، فلکیات تفسیر ،حدیث ،منطق اور فلسفہ غرض تمام علوم حاصل کیے جاتے تھے، بعد میں یہ سلسلہ ختم کر دیا گیا۔اس تاریخی المیے کی طرف علامہ اقبال نے بھی اشارہ کیا ہے۔ شیخ محسن علی نجفی نے مدارس اور برِصغیر کے مایہ ناز علمی مرکز جامعہ کوثر بنانے کے علاوہ پبلک سکولز، کالجز اور کیڈٹ کالج بنائے ۔معاشرے کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے ٹیکنیکل کالجز بنا کر ہر ایک کو معاشرے کا فعال شخص بنانے اور روزگار کی صلاحیت پیدا کرنے کا موقع فراہم کیا۔ قرآنی تعلیمات کی نشر و اشاعت آپ کے مشن کا حصہ تھا یہی وجہ ہے کہ انہوں نے نہ صرف بلاغ القران کے نام سے جو اب ایپ کی صورت میں بھی موجود ہےقرآن کا ترجمہ کیاہے بلکہ الکوثر فی تفسیر القران کے عنوان سے قدیم وجدید علوم پر مشتمل 10 جلدوں پر جامع تفسیر لکھی ہے۔ اس تفسیر کے مختلف موضوعات پر جامعات میں ایم فل سطح کے تحقیقی مقالے لکھے جا چکے ہیں۔ انہوں نے قرآن حفظ کرنے کے سلسلے کو بڑھانے کے لیے باقاعدہ حفاظ القرآن اور بنت الہدی جیسے عظیم قرآنی مراکز کی بنیاد رکھی ،جہاں قرآن حفظ کرنے کے ساتھ ساتھ جدید علوم کا بھی خاص نظام موجود ہے۔آپ زمانہ شناس علمی شخصیت تھے. دنیا کے نشیب و فراز پر گہری نظر رکھتے تھے۔ دنیا میں مختلف تحریکیں چلیں اور ختم بھی ہوئیں لیکن بعض تحریکوں کی وجہ سے مختلف زبانوں اور اہل قلم کی سوچ اور فکر میں تبدیلی آئی۔ان تحریکوں میں سے ایک مارکسی تحریک بھی ہے۔ اس مرد مجاہد نے اپنے قلم کے ذریعے قرآن و حدیث کی روشنی میں اس تحریک کی خامیوں کی نشاندہی کی اور اس تحریک کے بنیادی نظریات کے مقابل اسلامی نظریات اور اصولوں کو واضح انداز میں پیش کرتے ہوئے ‘اسلامی فلسفہ اور مارکسزم،کے نام سے ایک بہترین جامع کتاب تحریر کی۔شیخ محسن علی نجفی کی بلا رنگ و مسلک سماجی، فلاحی اور انسانیت کی خدمت ہمارے لیے قابل تقلید عمل ہے۔ رنگ و مذہب و مسلک سے بالاتر ہو کر انسانیت کی خدمت کرنا ان کا امتیاز اور محبوب ترین عمل تھا۔ کسی بھی انسان کی مدد اور خدمت کر کےان کو دلی خوشی اور سکون حاصل ہوتا تھا۔آپ نے انسانیت کی فلاح و خدمت کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ انسانیت کی خدمت کرنے والا کوئی شخص مسائل لے کر اپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتا توآپ نہ صرف ان کے احترام میں کھڑے ہو جاتے تھے بلکہ خندہ پیشانی کے ساتھ گلے ملتے اومحبت بھرے انداز میں اس طرح گویا ہوتےانسانوں کی خدمت گزارآپ ہمارے ہاں قدم رنجہ فرما کر ہمیں خوش کر دیا۔ اور ان کے مسائل کو اسی وقت حل کر دیتے تھے۔ ہزاروں لوگ انفرادی اور اجتماعی صورت میں مسائل لے کر حاضر ہوتے تھے آپ ان کے مسائل حل کرنے کی بھرپور کوشش کرتے تھے۔ بڑے سے بڑے مسائل اس طرح حل کرتے تھے کہ کسی کو خبر تک ہونےنہیں دیتے۔بے آسرا اور بیمار لوگوں کے لیےمدینہ اہل بیت کے نام سے ایک بستی تعمیر کی جہاں نادار لوگوں کوچھت فراہم کرنے کے علاوہ بنیادی ضروریات فراہم کرتے ہوئے ان کی صحت کی بحالی میں مدد فرماتے اور محنت کرنے کی تربیت و ہمت دیتے ہوئے ان کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد کرتے۔ملک میں زلزلے اور سیلاب جیسی بڑی آزمائش کی وجہ سے ہزاروں لوگ بے سر و سامانی کی حالت میں آسماں تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے تو اس وقت بھی انسانیت کی خدمت کو عبادت سمجھنے والےیہی محسن ملت ان کی تکلیف، دکھ درد پر تڑپ اٹھے اور دن رات خود نگرانی کرتے ہوئے ان کے لیے گھر تعمیر کرانے کے علاوہ ضروریات زندگی کا سامان مہیا کرنے کا کام مکمل کر دیا۔ جہاں جہاں پینے کے پانی کی قلت تھی وہاں پر بورنگ وغیرہ کرواکر پانی پہنچانے کی بھرپور کوشش کرتے رہے۔ شیخ محسن علی نجفی نے نہایت سادہ زندگی گزاری۔ خود فرش اور زمین پر بیٹھے، مشکلات برداشت کرتے رہے لیکن لوگوں کی مشکلات ،مسائل اور پریشانیاں دور کر تے ہوئے ان کو سہولیات فراہم کرتے رہیں۔ مہمانوں کے ساتھ ہی دسترخوان پر بیٹھ کر کھانا تناول فرماتے تھے، جس دن مہمان نہ ہوں تو اضطرابی کیفیت اور بے چینی محسوس ہوتے اور کسی طالب علم کو بلا لیتے تھے۔ سب سے زیادہ انسان کو اپنی جان عزیز ہوتی ہے لیکن انہوں نےاپنی ذات کو کبھی بھی فوقیت نہیں دی۔ اس کی واضح مثال یہ ہےکہ لوگوں کی صحت کے لیے ہر وقت تعاون کرنے اور کئی ہسپتالوں کوبنانے والی شخصیت شیخ محسن کو جب دل کی تکلیف ہوئی اور ڈاکٹروں نے آپریشن کا کہا تو ملک اور بیرون ملک میں موجود آپ کے عقیدت مندوں اور اہل خیر حضرات نے بیرون ملک جا کر آپریشن کرانے کی تاکید کی اور تمام اخراجات اٹھانے کا وعدہ بھی کیا لیکن شیخ محسن علی نجفی نے شکریہ ادا کرتے ہوئےیہ فرمایا کہ میں اپنی ذات پر قوم و ملت کا اتنا سرمایہ خرچ کرنے کا قائل نہیں ہوں اور پمز ہسپتال میں ہی آپریشن کرانے پر رضامندی کا اظہار کیا ۔
بعد میں بعض قریبی دوستوں اور بعض ڈاکٹروں کے خاص مشورے اور تاکید کے بعدآغا خان ہسپتال جانے پر راضی ہوئے۔ آپ داعئ اتحاد بین المسلمین کے بڑے علمبردار تھے۔ آپ ہر وقت اتحاد امت کے لیے صف اول میں رہے۔ مختلف سمیناروں اور پروگراموں میں اہل سنت کے علماء کو خود دعوت دیتے تھے مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ امیر جماعت اسلامی قاضی حسین مولاناعبدالجبار شاکر ان پروگراموں میں شامل ہوکر خصوصی خطاب کرتے تھے۔عصر حاضر کے نامور محقق اور اہل حدیث کے نامور عالم دین ضیا اللہ شاہ بخاری بھی پروگرام میں تشریف لاتے رہے۔جامعۃ الکوثر میں تحقیق کرنے کےلیے اہل سنت کے محققین آتے تو آپ ان کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے تھے۔ انہوں نے نہ صرف کتابیں لکھیں بلکہ بیسیوں تحقیقی مقالے بھی لکھے۔ افغانستان کے حالات سے سبھی واقف ہیں شیخ محسن علی نجفی کئی بار افغانستان میں جا کر دیگر مسالک کے علماء کی کانفرنس میں تحقیقی مقالے پیش کرتے ہوئے علماءکو تمام مسالک کے فقہ کا مطالعہ کرنے کی تاکید کرتے رہے۔ اپ نا صرف تحقیق و تحریر کرتے تھے بلکہ شعر و ادب سے شغف بھی رکھتے تھے۔ آپ شاعری بھی کرتے تھے خاص طور پر عربی زبان میں خوبصورت کلام لکھتے تھے۔ ان کی شعر و شاعری سے دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ محفل مقاصدہ کا اہتمام کر کے عصر حاضر کے نامور شعراء افتخار عارف پروفیسر احسان اکبر غیور زیدی اور اختر عثمان کو سنتے ہوئے سرور کی کیفیت طاری ہوتی تھی۔ عصر حاضر کے نامور شاعر افتخار عارف اپ کے عقیدت مندوں میں سے ہیں۔ اردو اور فارسی کے مستند شاعر بشیر ناظم اپ کے بڑے مداح تھے۔آپ نام نمود اور شہرت سے کوسوں دور رہتے ہوئے کار خیر انجام دیتے رہے۔
معصوم کا فرمان ہے کہ اس طرح زندگی گزارو کہ حیات میں لوگ زیارت کے تمنا کریں اور موت پر جدائی کا غم ۔
جب اپ کا جنازہ اٹھا تو ہر طبقے کے لوگ جوان، بزرگ، بچے تمام زار و قطار رو رہے تھے۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
Urdu cloumn, column in urdu , urdu news

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں