چراگاہ کیا ہے ، علی نقی شگری
چراگاہ کیا ہے
History of Gilgit Baltistan , What is pasture
تحریر. علی نقی شگری
گلگت بلتستان کے ضلعوں میں اسامیاں دہ کی جاٸیداد کی مختلف قسمیں ریکارڈ مال میں درج ہیں اس میں کچھ قسمیں ذاتی جاٸیداد اور کچھ قسمیں اجتماعی ملکیت ہیں مثلاً
ذاتی ملکیتوں کی کچھ قسمیں ذیل ہیں:
١۔ مزروعہ ٢۔ غیر مزروعہ ٣۔ مکان ٤۔ بنجر قدیم وغیرہ
اجتماعی ملکیتوں میں
١۔ شاہراہ عام ٢۔ کوہل ٤۔ قبرستان ٥۔ تالاب ٦۔ بکر کوٹھے ٧۔چوپال ٨۔مذہبی مقامات٩۔ چراگاہیں وغیرہ
چراگاہ (بلوق)
چراگاہ جسے بلتی زبان میں ”بلوق“ کہتے ہیں ایسا ایریا ہوتا ہے جہاں ایک یا ایک سے زیادہ موضع کے اسامیان باہمی اشتراک سے مویشی چراتے ہیں جہاں مویشیوں کے رکھنے کے لیے کوٹھے بھی بناٸے ہوتے ہیں اور یہاں سے لکڑی، خود رو گھاس، جھاڑیاں اور پتھر بجری وغیرہ متعلقہ مواضعات حاصل کرتے ہیں ان مالک مواضعات کی اجازت کے بغیر دوسرے مواضعات کی اسامیاں یہاں نہ مویشی چرا سکتے ہیں نہ یہاں سے دیگر منفعت حاصل کر سکتے ہیں۔
چراہگاہوں کے نقشے، محل وقوع، حدود اربعہ، رقبہ (میلوں میں) ریکارڈ مال میں باقاعدہ اندراج موجود ہے اور اس چراگاہ کے مالکان/ حقوق رکھنے والوں کے حوالے سے مفصل اندراج کیا ہوا ہوتا ہے اس کے علاوہ اس ایریا میں کونسے پودے یا جھاڑیاں، خود رو گھاس اگتے ہیں کا ذکر بھی کیا ہوا ہے یعنی ایک کھیت کے جسطرح ریکارڈ موجود ہے ٹھیک اسی طرح بلوق کا بھی بندوبستی ریکارڈ موجودہے فرق یہ ہے کہ کھیت کےمالک کے خانے میں اسامی کانام درج ہے جبکہ چراگاہ کے خانہ مالک میں مشترکہ اسامیان دیہات درج ہے یہ قبضے اور مالکانہ حقوق قدیم الایام یعنی راجہ گیری دور سے چلے آرہے ہیں راجہ متعلقہ دیہات سے اس چراگاہ کا جانور اور گھی کی صورت میں باقاعدہ ٹیکس لیتا تھا بعد ازاں ڈوگرہ دور میں ٹیکس رقم کی صورت میں لیتے رہے جسے بلتی زبان میں “ لو پینے” کہتے تھے اب چونکہ تمام مالیہ اور ٹیکسز معاف ہیں اس لیے چراگاہوں کے محصولات بھی نہیں لیے جارہے ہیں۔
چراگاہوں کو بیرون لاٸن یا خالصہ سرکار کی اصطلاح کا استعمال سراسر غلط ہےبیرون لاٸن ایسی زمینی حصے کو کہتے ہیں جو موضع یا چراگاہ کے حدود میں نہیں آتا ہو اس کی بندوبستی ریکارڈ میں کوٸی ذکر نہیں اور خالصہ سرکار ایسی زمین کے ٹکڑے کو کہتے ہیں جو موضع کے اندر واقع ہواس کا نمبر خسرہ لگا ہوا ہو اور کھیوٹ کھاتہ قاٸم ہو جمعبندی کے خانہ مالک میں سرکار دولتمدار درج ہو۔
میں یہ تحریر اس لیے لکھ رہا ہوں کہ آج کل گلگت بلتستان میں لینڈ ریفارمز کا باقاعدہ آغاز ہو چکا ہے اور میرے علم کے مطابق ابتداٸی ڈیٹا جو جمع کیا گیا ہے اس میں چراگاہ کا ذکر کہیں بھی نہیں ہے اسے بیرون لاٸن قرار دیا گیا ہے اگر لینڈ ریفارمز میں چراگاہ کو ظاہر نہ کیا گیا تو یقیناً بعد میں اسامیان اور مواضعات کے درمیان ایشوز پیدا ہو سکتے ہیں۔
اس تحریر کے ساتھ قارٸین کی معلومات کے لیے کسی چراگاہ کی بندوبستی ریکارڈ کی کاپی اور نقشہ لف کیا جاتا ہے۔