گلگت بلتستان کی آزادی پہ تنقند یا اسان لفظوں میں طنزیہ پوسٹ کرنے والوں کے نام ایک پیغام، صابر شگری
گلگت بلتستان کی آزادی پہ تنقند یا اسان لفظوں میں طنزیہ پوسٹ کرنے والوں کے نام ایک پیغام
Criticism of the freedom of Gilgit-Baltistan or in simple words
مورخین کے مطابق گلگت بلتستان میں زمانہ از تاریخ اسلام اسان لفظوں میں اسلام سے پہلے کن کن مذاہب اس کے لوگوں یہاں آباد تھے
اسلام سے قبل کی تاریخ کی اگر مطالعہ کریں تو بودوباش اور دیگر حالات سے آگاہی کیلے علاقے میں جو بے شمار آثار یاتی شواہد موجود ھے ان کی مدد اور سے اسلام سے قبل تک کی گمشدہ کڈیاں تلاش کرنے میں مصروف عمل ھے اور یہاں ہنگول اور دیگر سارے غیر مسلم قبائل کی آمد پہ مورخین اتفاق کرتے ہے
اور دوسرے بہت سارے مداخلت ھمارے اباو اجداد نے برداشت کی کبھی ھمارے اوپر مذہبی پاپندی کا شکایت کا سامنا رھا
بعدازاں سیکھ سرکار ڈوگرہ کی اآمد ہوٰ
اس وقت بلتستان کے بہت سارے اضلاع میں رزق کی فقدان تھا تو ڈوگروں نے ان غریب عوام پہ ظلم کی انتہا کرتے تھے اس سنگین حالت میں ھمارے ابإ اجداد نے ناجانے کن کن مشکلات کا سامنا کرتے ہوۓ اپنی زندگی گزر بسر کی
اج الحَمْدُ ِلله بلتستان میں پڑھے لکھے نوجوان کی کمی نہیں ھے بہت سے مورخین بھی اس میدان عمل میں کام کرہے ھے تاریخی مواد جمع کرنے میں مصروف عمل ھے ،
جن کا قلم تشنگان علم کو شعور ذندگٸ عطا کررہا ھے جن کی عمل تدریس سے نسل نو گوھر نایاب بن رہی ھے ۔
طنزیہ پوسٹ کرنے والوں سے گزارش ھے اپ ان کی خدمات کو کبھی تاریخ کی اوراق میں پڑنے کی کوشش کی ھے ،۔۔۔
جدوجہد آزادی میں حصہ لینے والے مجاہدین کو سلام پیش کرتا ہوں انہوں نے اپنی کم تعداد کے باوجود اپنے مقابلے میں باقاعدہ ترقییافتہ مسلح افواج کی گلگت بلتستان کو آذادی دلایا ۔کیا یہ ہی انکی غلطی تھا?
تنقيد کرو تو موجودہ دور کے نوجوانوں سے کرو
کیا ان کے کوٸی فرایض نہیں ھے
موجودہ نسل کے اوپر یہ زمہداری ھے کہ اپنے اباع و اجداد کی قربانیوں کی قدر کرتے ہوے ان دنوں میں شہدوں کے لہو کے سلام پیش کریں
ابھی ھم ھر تہوار بڑے جوش و عقيدت سے مناتے ہے تو ان شہدوں کی لہو ان کے قربانی ھے .
اخر میں میں اپنے تمام بھاٸیوں سے مخاطب ہوں خدا کیلے اپنا قبلہ درست کرتے ہوۓ اپنے اجداد کی قربانی کی قدر کرتے ہوۓ ھمیں بھی اپنی دیس کے لیے حقوق دلانے کے لیے کام کرنے کی ضرورت ھے
اج بھی ہو جو ابراھیم کا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے انداز گلستاں پیدا
نوجوان کی بے راہروی سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ھے بلکہ ان کہ مناسب اور موزوں تربيت کی ضرورت ہے اس لیے کہ
ذرا نم ہوتو یہ مٹی بڑی زرخیر ھے ساقی
ھمیں چاھے اجکل کی میڈیا کی مدد سے اپنی پہچان کے لیے اپنے حقوق کی وصولی کے لیے ریڈیو ٹی وی کے ذریعے ایسی تعليم دیں کہ نواجون نسل جس میں ان پڑھ بھی شامل ھے وہ بھی ان کی تعلیم پہ عمل کرتے ہوۓ اپنی منزل کا صحیح تعین کر سکے