cricket news in urdu 0

پس زنداں! پروفیسر قیصر عباس
زندگی عروج وزوال کا نام ہے ۔مشکلات اور آزمائشیں آتیں ہیں لیکن یہاں دو صورتیں سامنے آتیں یا تو بندہ ٹوٹ جاتا ہے یا پھر مستحکم ہوتا ہے ۔مگر اس کے ٹوٹنے یا مضبوط ہونے میں اس شخص کے دوست احباب اور چاہنے والوں کا بڑا کردار ہوتا ہے ۔اگر کوئی شخص کسی ناگہانی مشکل میں پھنس جائے اور اس کے دوست اس سے مخلص ہوں تو انسان اللہ کے فضل وکرم اور دوستوں کی مخلصانہ کاوشوں کی کی وجہ سے مشکلات سے نکل آتا ہے لیکن اخلاص ضروری ہے ۔اگر انسان حق اور سچ پر کھڑا ہو تو پروردگار انسان کے لئے وہاں سے وسیلے اور مدد فراہم کرتا ہے جس کا وہم گماں بھی نہیں ہوتا ۔یہ 13 مئی کا دن تھا جب میں ایک گھناؤنا کھیل کا شکار ہوا۔میرا قصور صرف یہ تھا کہ میں میرٹ کی بات کرٹا تھا اور ایمانداری پر یقین رکھتا تھا ۔شاید ہم جیسے لوگ اس نظام میں مس فٹ ہیں ۔اس لئے مجھے سائیڈ لائن کرنے کے لئے ایک سازش تیار کی گئی ۔ادارے کے ایک طاقتور شحص نے بغیر انکوائری اور شفاف تحقیقات کے میرے خلاف ایف آئی آر درج کروا دی ۔ایسا کیوں ہوا دراصل موصوف فوٹو فیلیا “تصویر پسندی”کا شکار ہیں ۔انہوں نے آو دیکھا نہ تاؤ فٹافٹ اپنے ملازم جسے تصویر یں بنوانے کے لئے ساتھ رکھا ہوا کو حکم صادر کیا کہ ان کی ہتھکڑیوں میں تصویریں بنا کر فوری طور پر مختلف گروپس میں شئیر کرو تاکہ اعلیٰ حکام تک ہماری کارکردگی کا پتہ چل سکے کہ ہم کتنا کام کر رہے ہیں۔ایف آئی آر درج ہوئی حوالات میں بند رکھا گیا اور پھر رات گئے خبر سنائی گئی کہ آپ اینٹی کرپشن کے ملزم ہیں اس لئے آپ کو اینٹی کرپشن کے حوالے کر دیا جائے گا ۔پنجاب پولیس کا رویہ ہمارے ساتھ کیا تھا وہی جو روایتی طور پر ہوتا ہے کہ اقبال جرم کروانے کے لئے مختلف نفسیاتی حربے استعمال کرنا خیر یہ ایک الگ داستان ہے ۔اینٹی کرپشن والوں کے پاس پہنچا تو سی ای او صاحب نے پوری کہانی سنی اور تفتیش شروع کر دی انہیں شاید پتہ چل گیا تھا کہ میں بے گناہ ہوں اور میرا جرم صرف ایمان داری ہے ۔خیر تفتیش آگے بڑھتی گئی ایک تین روزہ ریمانڈ ہوا ۔حوالات کی سختی الگ ۔چھوٹا سا کمرہ اسی کمرے میں واش روم اور پھر اسی حوالات میں بارہ سے تیرہ لوگ بند ہونا ایک الگ اذیت تھی۔دوستوں کی ہمت دلانا حوصلا بڑھانا شاید میرے دوست میرے ساتھ نہ ہوتے تو میری ہمت ٹوٹ چکی ہوتی کیونکہ حوالات ایسے ہی تھی جس طرح جہنم کا کوئی حصہ ہو۔سب سے بڑی اذیت یہ تھی کہ ہتھکڑی میں عدالت میں پیش ہونا اور یہ اذیت کم ازکم چار بار سہنا پڑی ۔پھر ڈویژن لیول پر انکوائری ہوئی سچ سامنے آگیا مگر جھوٹ کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے اور یہ جھوٹ بھاگتا بھاگتا فرید ٹاؤن ڈی جی اینٹی کرپشن کے پاس پہنچ گیا وہاں سے حکم صادر ہوا اور ایک جے آئی ٹی بنی جس کی رپورٹ پر مجھے بے گناہ ٹھہرایا گیا اور اصل ملزمان کا تعین ہوا ۔یوں اللہ کے کرم سے میری آزمائش ختم ہوئی ۔لیکن زندگی کے ان تلخ ترین بارہ دنوں نے میری زندگی پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں ۔میری زندگی کا وہ سب سے زیادہ اذیت ناک لمحہ وہ تھا جب میرے بیٹے نے مجھے ہتھکڑیوں میں دیکھا ۔میرے دوستوں نے میری رہائی کے لئے وہ جد وجہد کی کہ میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا ۔میری زندگی میرے دوستوں کی مقروض ہے اور یہ قرض میں شاید میں مرتے دم تک نہیں اتار سکتا ۔میرے تعلق داروں اور چاہنے والوں نے میرے لئے دعائیں کی میرے خاندان نے دعاؤں کے سلسلے کو جاری رکھا ۔قید کے دوران مجھے خود خداوند متعال کے قرب کا موقع ملا کیونکہ میری بے گناہی کا سب سے بڑا گواہ میرا پروردگار ہی تھا ۔خیر 12 دن مشکل ترین دنوں کے پاس میرے رب نے مجھ پر کرم کیا میں 25 مئی کو باعزت بری ہوا۔لیکن میرے ایک نہایت سینئر پروفیسر دوست نے مجھے نصیحت کی کہ کہ موجود ہ سسٹم میں آپ کے پاس دو آپشن ہیں یا تو سسٹم کے ساتھ رچ بس جاؤ یا پھر اس سے گریز کرو ان دونوں باتوں کی بجائے تیسرے آپشن (میرٹ ) پر بات کرو گے تو کچلے جاؤ گے ۔اسلئے میں نے اب گریز والے آپشن کو چنا ہے ۔
پروفیسر قیصر عباس ۔column in urdu

50% LikesVS
50% Dislikes

پس زنداں! پروفیسر قیصر عباس

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں