ایک ادبی نشست علی اکبر ناطق کے ساتھ، راہی شگری
ایک ادبی نشست علی اکبر ناطق کے ساتھ، راہی شگری
7نومبر2024 دن کے پہلے پہر میں اپنے دفتر میں موجود تھا۔دوران ڈیوٹی اچانک خیال آ یا کہ کیوں نہ عصر حاضر کے عظیم ناول و افسانہ نگار وشاعر علی اکبر ناطق کے ساتھ ایک ادبی نشست کا بندوبست کروں۔ جو کہ پہلے سے بلتستان میں وزٹ پہ آ ے ہوے تھے ،اور کچورا کو اپنا عارضی مسکن قرار دیکر وہاں ڈیرہ جماے ہوے تھے۔وٹس ایپ پر ان سے محدود رابطے موجود تھے۔چنانچہ اس غیبی خیال کو عملی صورت دینے کی خواہش نے مجھے ڈاکٹر حسن خان اماچہ صاحب کو کال کرنے پر آ مادہ کیا۔جب ان سے بذریعہ کال اس خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے کہا کہ حسن اتفاق سے ناطق صاحب اس وقت معہ ٹیم ہمارے ہاں آ ے ہوے ہیں ۔قسمت کے ستارے کو مہرباں دیکھ کر میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ ناطق صاحب کو شعرا کی جانب سے یہ اطلاع دی جاے کہ شگر کے شعرا ان سے ملنا چاہتے ہیں۔تو ڈاکٹر صاحب نے آ ن ہولڈ کال ان کو میری درخواست سے آ گاہ کرایا انہوں نے بھی شعرا سے ملنے کی حامی بھرلی ۔چنانچہ پروگرام کے بارے میں مزید معلومات لینے کیلیے میں خود ان سے ملنے کیلیے ڈاکٹر صاحب کے گھر جا پہنچا۔
وہاں پر ڈاکٹر صاحب کے خوبصورت رنگ برنگے پھولوں بھرے باغ میں ناطق صاحب اپنی ٹیم کی حصار میں ڈاکٹر صاحب کے ہمراہ چہل قدمی ساتھ ہی فوٹو سیشن کا دور بھی چل رہا تھا۔اس دوران اپنی مداخلت کو مکروہ سمجھکر انکی فراغت کا انتظار کرتا رہا۔
جب چہل قدمی سے فراغت پائی تو پہلی دفعہ ناطق صاحب سے میری ملاقات ہوگئی۔ڈاکٹر صاحب نے مختصر مگر اچھے انداز میں ناطق صاحب سے میرا تعارف کرایا۔ان کے ساتھ نئی نسل سے تعلق رکھنے والا ایک جاندار شاعر ادبی ایکٹی وسٹ تہذیب الحسن بھی موجود تھے۔ان سے بھی پہلی ملاقات ہوئی۔دوران ملاقات ادبی نشست کا وقت کار یہ طے پایا کہ 4بجے سہ پہر ناطق صاحب چھورکاہ وزٹ سے واپسی پر شعرا سے ملیں گے ۔
وقت کار مقرر ہوتے ہی میں نے شگر کے معروف ادبی منتظم شرافت ناصر اور ادبی طور پر سنجیدہ و معتدل مزاج جبکہ سیاسی طور گرم مزاج شاعر عنایت حسین حیدر کو ادبی نشست کے وقت کار کی اطلاع دینے کیلیے کال ملائی تو اولذکر شاعر کا فون حسب دستور وحسب توقع بند پایا،جبکہ عنایت حیدر کو بروقت پروگرام میں شرکت کی دعوت دی گئی ۔انہوں نے حسب وعدہ بروقت شرکت بھی کی۔اس کے بعد فدا راہی صدر حلقہ فروغ ادب سے رابطہ ہوا۔وہ بھی وقت سے پہلے منزل مقصود پر پہچنے میں کامیاب ہوے۔
جمیل شیخ صاحب بھی اپنی سابقہ روایت پر قایم رہے۔اور وعدے کے باوجود حاضر نہ ہوسکے۔
باقی شعرا کو اطلاع دینے کی کڑی زمہ داری ڈاکٹر صاحب نے اپنے سر لیا جو کہ پوری ہوئی۔چناچہ امیر علی عاشق،محمد حسین آ رزو اور فدا حسین طغاجی نے ڈاکٹر صاحب کی صداے استغاثے پر لبیک کہتے ہو ے ادبی نشست میں شرکت فرمائی۔
علی اکبر ناطق سے محدود پیمانے پر ایک مختصر مدت سے یک طرفہ رابطےجاری تھے۔ ان کے فن پارے ابھی زیر مطالعہ ہیں۔ان کے فن اور شخصیت کے بارے میں مکمل راے زنی کرنا فی الحال قبل از وقت ہے ۔البتہ اجمالی طور پر ان کے فن پاروں کے بارے میں عارضی طور پر کوئی راے قائم کیا جاسکتا ہے ،یہاں عارضی راے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے فن پاروں کے مکمل مطالعے کے بعد ہی مستقل طور پر کوئی توانا راے قائم کیا جا سکتا ہے، اس وقت تک اس عارضی راے کو قابل ترمیم سمجھی جاے۔جب پورے ملک کا جمہوری نظام آ ے روز آ ئینی ترامیم کا متقاضی ہو سکتا ہے تو ایک عام لکھاری کی کی تنقیدی آ را بھی ترمیم کا اپناحق محفوظ رکھ سکتا ہے۔ ہر چند ملک کے گوش کنار میں رہنے والوں کی سیاسی و ادبی آ را کو نہ سیاست کے ایوانوں میں اہمیت دی جاتی ہے نہ ہی ادب کے ۔تاہم بعض شخصیتیں ایسی ہوتی ہیں جن سے پھوٹنے والی فنی اور فکری کرنیں ہمارے جذبات کو برانگیختہ کرتی ہیں۔ظاہر ہے اس جذبے کی پیروی ضروری ہوتی ہے۔
کل کی ادبی نشست میں انہوں نے جو نظم فلسطین کے بارے کہی ۔ان میں فن کی جمالیاتی اور فکری خصوصیات ایک پیغام کی صورت میں نکھر سامنے آ ئی ہیں۔مجموعی طور پر ان کے فن پاروں کی خصوصیت یہ ہے ان میں روایتی اسلوب اور انداز سے کافی حد تک احتراز کرنے کی کوشش کی جھلک موجود ہے ۔کہانیاں اور کردار پرانے اور روایتی ضرور ہیں لیکن اس سے پھوٹنے والے فکری پیغامات ابلاغ کے نئیے پیمانوں سے ہم آ ہنگ لگتے ہیں ،چناچہ اہل سماج تک ان فن پاروں کے پیغام رسانی کا عمل بڑی سرعت کے ساتھ انجام پانے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔
ادبی نشست کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر حسن خان صاحب نے خود ادا کیے۔ شگر کی ادبی تاریخ پر جامع انداز میں روشنی ڈالی ۔ یہ مختصر مگر یاد گار ادبی نشست بظاہر مختصر لگ رہی تھی لیکن جامعیت کے حساب سے اس کی اہمیت اپنی جگہ اس لیے مسلم تھی کہ اس کے مہمان خصوصی کی فرشی نشست پر ایک قومی لیول کے نثری و شعری ادب کا نمائندہ شخصیت علی اکبر ناطق جلوہ افروز تھے۔جنکی ادبی پہچان کیلیے ان کے تازہ ناول “کوفہ کے مسافر” کی ابھرتی ہوئی شہرت کافی ہے ۔بعد ازاں مہمان شاعر تہذیب الحسن نے دلوں کو چھونے والی ایک نعت کے ذریعے سامعین سے خوب پذیرائی وصول کی ۔ باری باری مقامی شعرا۔شرافت حسین ناصر،عنایت حیدر ،فدامحمد راہی، امیر علی عاشق ،علی محمد خالص،محمد حسین آ رزو اور ڈاکٹر فدا حسین فدا اور راقم الحروف نے اردو اور بلتی میں اپنے اشعار پیش کیے۔
ادبی نشست خلاف راویت اس انداز میں شروع ہوا کہ نامی گرامی شعرا صاحبان نے اپنی اپنی نشست سے علامتی سٹیج تک جانے کی زحمت بھی گوارا نہیں کیا۔
چناچہ اماچہ میوزیم کی بالائی منزل پر رونما ہونے والی یہ جامع ادبی نشست علی اکبر ناطق کی نظم فلسطین کے پس منظر میں لکھی ہو ئی تاریخی نظم کے غم انگیز تخیلات و تصورات کی بھیڑ میں تحلیل ہ گئی۔
آ خر میں جاتے ہوے علی اکبر ناطق نے اپنے شہرہ آ فاق ناول کوفہ کے مسافر کی دو کاپیاں ایک ڈاکٹر صاحب کو اور دوسری” حلقہ فروغ ادب “شگر کے نام ہبہ فی سبیل اللہ کرکے بخش دیں ہم اراکین حلقہ فروغ ادب علی اکبر ناطق اور ڈاکٹر حسن خان صاحب کے شکر گزار رہیں گے۔
وزیراعظم اور سیاسی رہنماؤں کی کوئٹہ دھماکے کی شدید مذمت، متاثرین سے اظہارِ ہمدردی
جی ایچ کیو حملہ کیس عمران خان اور دیگر ملزمان پر فرد جرم کی کارروائی دوبارہ موخر
ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی! پروفیسر قیصر عباس