بلا مقابلہ ، پروفیسر قیصر عباس
بلا مقابلہ ، پروفیسر قیصر عباس
آج کل ملک عزیز میں بلا مقابلہ منتخب ہونے کی روایت چل نکلی ہے ۔پہلے پنجاب سے پاکستان مسلم لیگ نون کے پانچ اور تحریک انصاف کے دو سینیٹرز منتخب ہوئے ان منتخب سینیٹرز میں کچھ ایسے سینیٹرز بھی تھے جو کہ “طاقت کے مراکز” کے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں۔اب ایک نئی خبر پڑھنے کو ملی ہے کہ بے نظیر بھٹو کی سیاسی وارث اور ذوالفقار علی بھٹو کی نواسی آصفہ بھٹو زرداری قومی اسمبلی کے حلقے 207( نواب شاہ ) سے بلا مقابلہ منتخب ہوگئی ہیں۔یاد رہے اس سے پہلے اسی حلقہ سے ان کے والد محترم آصف علی زرداری منتخب ہوئے تھے مگر صدر پاکستان بننے کے بعد قومی اسمبلی کی یہ نشست خالی قرار دے دی گئی اور اب اس نشست پر ضمنی الیکشن ہونا تھا لیکن محترمہ آصفہ بھٹو زرداری بلا مقابلہ ایم این اے بن گئی ہیں۔صدر پاکستان نے آصفہ بھٹو زرداری کو خاتون اول کا درجہ بھی دیا ہوا ہے۔ان کے مخالف امیدوار شیر محمد رند تھے جن کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہےمگر یہ اکیلے مخالف امیدوار نہیں تھے شیر محمد رند کے علاؤہ دس اور امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دئے گئے ہیں یاد رہے شیر محمد رند نے آصف علی زرداری کے خلاف بھی الیکشن لڑا مگر شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔اب اسی امیدوار کو ٹھیک دو ماہ بعد الیکشن لڑنے کے لئے نااہل قرار دے دیا ہے۔اس طرح کے مضحکہ خیز فیصلے ملک عزیز میں ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ہونا بھی یہی چاہے تھا سلطنت کی شہزادی کا دل چاہا کہ میں بلا مقابلہ منتخب ہونا چاہتی ہوں تو ان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے ایک دو یا تین نہیں بلکہ گیارہ امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دئیے گئے ۔اسے کہتے ہیں جمہوریت کا انتقام ۔ویسے بھی آصفہ بھٹو زرداری کے بلا مقابلہ منتخب ہونے کی خواہش سے جمہوریت نے مزید مستحکم ہی ہونا ہے کیونکہ بقول نوجوان چئیرمن پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری” جمہوریت بہترین انتقام ہے۔”اک معصوم خواہش کی تکمیل کے لئے تمام جہموری رویوں کا جنازہ نکال دینا یہ صرف بھٹو صاحب کی آل اولاد کو ہی جچتا ہے ۔ویسے اگر الیکشن ہو بھی جاتا تب بھی آصفہ نے ہی الیکشن جیتنا تھا مگر کیا کیا جائے ایک فیوڈل لارڈ مائنڈ سیٹ کا جو کہ یہ تک برداشت نہیں کرسکتا کہ ان کے مدمقابل کوئی اپنے کاغذات نامزدگی ہی جمع کروا دے؟ پیپلزپارٹی میں یہ رواج بہت پہلے سے موجود ہے آصفہ بھٹو زرداری کے نانا اور بانی چیئرمین پیپلز پارٹی جناب ذوالفقار علی بھٹو نے 1977ءکے انتخابات میں اپنے مخالف جماعت اسلامی کے امیدوار مولانا جان محمد عباسی کو لاڑکانہ سے اغواء کروا دیا تھا اور ان کو اس وقت چھوڑا گیا جب کاغذات جمع کروانے کا وقت ختم ہوگیا۔بانی چئیرمن کی دیکھا دیکھی دو بڑے صوبوں پنجاب اور سندھ کے وزراء اعلیٰ جن کا تعلق بھی پیپلز پارٹی سے ہی تھا کے ٫دلوں میں بھی یہی معصومانہ خواہش نے جنم لیا اور انہوں نے بھی اپنے مدمقابل امیدوارروں کو غائب کروا دیا یوں 1977ء کے انتخابات کو متنازع بنا دیا گیا اور اسی تنازعہ نے بعد میں 1979ء کے مارشل لاء کا راستہ ہموار کیا۔اس کے بعد کی ساری کہانی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے احباب جانتے ہیں۔لیکن بدقسمتی ہے کہ ہم تاریخ پڑھتے تو ہیں لیکن تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے۔اب محترمہ بے نظیر بھٹو کی بیٹی کو جس بھونڈی کوشش کے ذریعے اسمبلی میں پہنچایا گیا ہے اس سے جمہوریت کی خدمت تو کم ازکم نہیں ہوئی ہاں جاگیر دارانہ ذہنیت آشکارا ضرور ہوئی ہے۔اس کے علاؤہ ایک اور مذاق اس مقروض قوم کے ساتھ یہ کیا گیا کہ صدر مملکت نے کمال فراخ دلی کے ساتھ یہ اعلان کیا ہےکہ” بطور صدر میں قومی خزانے سے تنخواہ نہیں لوں “مگر ساتھ ہی آصفہ بھٹو زرداری کو خاتون اول کا درجہ دے دیا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ کلفٹن میں بلاول ہاؤس اور لاڑکانہ میں اپنے گھر کو صدارتی کیمپ آفس قرار دے دیا گیا دوسرے لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ اب ایوان صدر اسلام آباد کے ساتھ ساتھ کلفٹن میں بلاول ہاؤس اور لاڑکانہ والے گھر کی بجلی ٫گیس اور ملازمین کے اخراجات قومی خزانے سے ادا ہونگے مگر جناب صدر تنخواہ بالکل نہیں لیں گے۔جب کہ آصف علی زرداری کے بیٹی آصفہ بھٹو زرداری کو وہ تمام مراعات حاصل ہوگی جو کہ خاتون اول کو حاصل ہوتیں ہیں یعنی فری پٹرول ٫بجلی ٫گارڈز اور پروٹوکول ان تمام مراعات کے ہوتے ہوئے بھلا بلا مقابلہ منتخب ہونے کی کیا ضرورت تھی؟اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ شاید مقابلہ کرکے منتخب ہونا شہزادی کی طبع نازک پر ناگوار گزرتا اس لئے موصوفہ کو بنا مقابلے کے ہی منتخب کروانے کا بندوست کیا گیا تھا۔
نوکری 2024، ورچوئل یونیورسٹی آف پاکستان اسلام آبادمیں نوکری کرنے کا موقع
قرارداد کی منظور ی! پروفیسر قیصر عباس!
column in urdu, urdu column, Uncontested