دردناک اور غمگین حادثہ خواجہ علی کاظم ، یاسر دانیال صابری
جب ہم اپنے پیارے اور عظیم لوگ کھو دیتے ہیں جو ہمارے معاشرتی، مذہبی، اور ثقافتی ورثے کا حصہ ہوتے ہیں۔ خواجہ علی کاظم اور سید جان علی کی المناک موت، خاص طور پر ٹریفک حادثے میں، نہ صرف سکردو اور گلگت بلتستان بلکہ پورے پاکستان میں ایک گہری تشویش اور دکھ کی لہر پیدا کر رہی ہے۔ ان کی جدائی ہمیں یہ احساس دلاتی ہے کہ ہم نے ایک عظیم شخصیت کو کھو دیا ہے، جو نہ صرف ایک بہترین نوحہ خواں تھے بلکہ ان کی آواز نے شیعی عقیدت مندوں کو روحانی سکون اور رہنمائی فراہم کی۔
خواجہ علی کاظم کی شخصیت عالمی سطح پر مشہور تھی اور ان کی نوحہ خوانی نے عالمی سطح پر محبت، عقیدت اور احترام حاصل کیا۔ ان کی آواز میں وہ قوت تھی جو دلوں کو چھو لیتی تھی، اور ان کی گونج نے نہ صرف پاکستان میں بلکہ بیرون ملک بھی لوگوں کے دلوں میں تاثیر کی۔ ان کی نوحہ خوانی کی روشنی اب سکردو اور پورے گلگت بلتستان میں مدھم ہوگئی ہے۔ یہ ایک ایسا لمحہ ہے جس کا کوئی بھر نہیں سکتا۔ اس حادثے نے نہ صرف ایک شخص کو چھین لیا بلکہ ایک خاص ثقافت اور مذہب کی آواز بھی چھین لی ہے۔
یہ حادثہ ایک سوال اٹھاتا ہے کہ کیا یہ محض ایک اتفاق تھا، یا پھر یہ ایک سازش کا نتیجہ تھا؟ سچ یہ ہے کہ ہمارے معاشرتی اور مذہبی رہنماؤں کو ہمیشہ خطرات کا سامنا رہا ہے، خاص طور پر جب وہ اپنے اصولوں کی دفاع میں کھڑے ہوتے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے مزاحمتی رہنماؤں نے ہمیشہ اس جرات کے ساتھ اپنے موقف کا دفاع کیا ہے جسے دشمن برداشت نہیں کرتا۔ خواجہ علی کاظم کی شہرت اور ان کی دلوں کو چھو لینے والی آواز، کچھ لوگوں کے لیے چبھتی تھی۔ ان لوگوں کے لیے ان کا نام ایک خطرہ بن چکا تھا کیونکہ وہ اس کی طاقت کو محسوس کرتے تھے۔
اس طرح کے حادثات کا سامنا ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ہمارے مذہبی رہنما کس قدر مشکلات اور قربانیوں کا سامنا کرتے ہیں۔ ان کا یہ سفر، جو انہوں نے اپنے مذہب کی خدمت میں گزارا، ان کے لیے آسان نہیں تھا۔ وہ ہمیشہ اپنے اصولوں پر ڈٹے رہے، اور اس کے بدلے انہیں سختیوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی قربانیاں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ ہمارا مذہب اور ہماری ثقافت ہمیشہ دشمنوں کی نظر میں خطرہ بن کر رہیں گی۔
اسے صرف ایک حادثہ سمجھ کر نظر انداز کرنا ایک سنگین غلطی ہوگی۔ ہمیں اس بات کا گہرائی سے جائزہ لینا چاہیے کہ ہمارے مزاحمتی رہنماؤں کے خلاف یہ واقعات کیوں رونما ہوتے ہیں اور اس کے پیچھے کس طرح کی سازشیں کام کر رہی ہیں۔ ہمارے رہنماؤں کی شہادتیں ایک پیغام دیتی ہیں، ایک احتجاجی صدا جو ہمیں سننی چاہیے اور ان کی قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔
یہ صرف خواجہ علی کاظم یا سید جان علی کا نقصان نہیں ہے، یہ پورے امت کی ایک کمی ہے۔ یہ حادثات ہمارے لیے ایک سبق ہیں کہ ہم اپنی یکجہتی اور محبت کو مزید مضبوط کریں تاکہ دشمن ہمارے درمیان تفرقہ نہ ڈال سکے۔ جب ہمارے رہنما شہید ہوتے ہیں، تو یہ صرف ایک فرد کی قربانی نہیں ہوتی بلکہ یہ ہماری مشترکہ تاریخ اور ایمان کی قربانی ہوتی ہے۔ ہمیں اپنے رہنماؤں کی شہادتوں کو یاد رکھنا چاہیے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
ہمیں ان رہنماؤں کی قربانیوں کو یاد رکھنا چاہیے جو اپنی جانیں دینا ضروری سمجھتے ہیں تاکہ ہم ایک بہتر معاشرتی اور مذہبی ماحول میں جی سکیں۔ ان کی قربانیاں ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ ہم سب کا ایک مقصد ہے، اور وہ مقصد ہمارے ایمان، اخلاق اور بھائی چارے کی حفاظت کرنا ہے۔
ہمیں اس بات کا بھی ادراک کرنا چاہیے کہ یہ حادثات صرف ٹریفک حادثات نہیں ہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک گہرا پیغام چھپا ہوا ہے۔ ان حادثات کے ذریعے ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ ہمارے مزاحمتی رہنماؤں کو مسلسل خطرات کا سامنا ہے۔ ہمیں ان کی جدوجہد کو تسلیم کرنا ہوگا اور ان کی رہنمائی کے تحت اپنے راستے پر چلنا ہوگا۔ ان کی قربانیوں کے باوجود، ہمیں ان کا عزم اور حوصلہ ملتا ہے کہ ہم اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے مزید محنت کریں۔
آخرکار، ہمیں اپنے ان رہنماؤں کی یاد میں اپنی دعاؤں کو بلند کرنا چاہیے اور ان کی قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔ ان کی قربانیاں ہمارے لیے روشنی کی کرن کی مانند ہیں، جو ہمیں ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کرنے کی تحریک دیتی ہیں۔
یہ واقعات نہ صرف ہمارے معاشرتی اور سیاسی حالات کی گہرائیوں کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ تشیع کے مزاحمتی رہنما اور ان کے پیروکار کس طرح اپنے ایمان، اصولوں اور جدوجہد کی قیمت ادا کرتے ہیں۔ 22 جنوری 1998 کو علامہ عرفان حیدر عابدی اور ان کی اہلیہ سیدہ سعیدہ خاتون کا ٹریفک حادثے میں شہید ہونا ایک ایسا سانحہ تھا جس نے پورے پاکستان کو غم میں ڈبو دیا۔ علامہ عرفان حیدر عابدی ایک جرات مند رہنما تھے جو ہمیشہ اپنے عقائد اور فکر کی تائید میں کھڑے رہے، اور ان کی بے باک تقاریر نے حکومت وقت کے خلاف ایک مضبوط آواز بلند کی۔ ان کی شہادت اس بات کی علامت تھی کہ تشیع کے رہنما ہمیشہ خطرات میں گھرے رہتے ہیں، خاص طور پر جب وہ اپنے عقائد کا دفاع کرتے ہیں۔
اسی طرح، علامہ سید سفیر شیرازی نجفی کا پراسرار حادثے میں شہید ہونا بھی ایک نیا لمحہ فکریہ ہے۔ ان کی شہادت نے یہ ثابت کیا کہ صرف ایک رہنما کی موت نہیں ہوتی، بلکہ ایک پورے فکر اور تحریک کی علامت کا خاتمہ ہوتا ہے۔ ان کا کردار اور ان کی علمی و مزاحمتی خدمات نے انہیں نہ صرف اپنے پیروکاروں کا قائد بنایا، بلکہ ان کے دشمنوں کے لیے بھی ایک خطرہ بن چکا تھا۔
ان حادثات میں جہاں ایک طرف ان رہنماؤں کی قربانیوں کی گونج سنائی دیتی ہے، وہیں دوسری طرف یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ ہمارے مذہبی رہنماؤں کو ایک مسلسل خطرے کا سامنا ہے۔ علامہ شہنشاہ حسین نقوی کا بھی خیرپور جاتے ہوئے حادثہ ہونا اور اس میں شدید زخمی ہونا، ہمیں اس بات کی یاد دلاتا ہے کہ مزاحمتی شخصیات کو کس طرح ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ ان کی زندگیوں پر بار بار حملے کیے جاتے ہیں تاکہ ان کی آواز کو دبایا جا سکے۔
اسی طرح، مشہور نوحہ خواں عرفان حیدر کا کراچی سے خیرپور جاتے ہوئے حادثے کا شکار ہونا، لیکن ان کی جان کا بچ جانا، ایک معجزہ تھا، مگر ان کے فرزند کو شدید زخمی کرنا ایک اور پیغام تھا کہ مزاحمتی شخصیات کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا جاتا ہے تاکہ ان کی تحریک اور اثر کو کمزور کیا جا سکے۔
پاکستان کے عظیم مزاحمتی عالم دین شہید حسن ترابی کی شہادت نے بھی ایک اور سنگین سوال اٹھایا کہ جب ایسے عالم دین جو ملک کی تاریخ میں دو بار بم دھماکوں کا شکار ہوئے، ان کی شہادت کے بعد بھی تکفیری عناصر کے حملوں کا سامنا کرتے ہیں، تو ان کا کیا مقام ہے؟ ان کے بیٹے زین ترابی کی شہادت نے یہ ثابت کیا کہ مزاحمت کا یہ سلسلہ کیسے خونریزی کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
یہ تمام واقعات ایک مشترکہ دھاگے میں بندھے ہوئے ہیں، اور وہ یہ ہیں کہ جب بھی ہمارے مزاحمتی رہنما اپنے ایمان اور اصولوں کے لیے کھڑے ہوتے ہیں، انہیں نہ صرف سیاسی، بلکہ جسمانی طور پر بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان رہنماؤں کی قربانیاں ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ ہمیں اپنے عقائد کی حفاظت میں کوئی کسر نہیں چھوڑنی چاہیے اور یہ کہ ہر قربانی کے بدلے ایک نیا عزم پیدا ہوتا ہے۔
یہ سانحات ہمیں یہ بھی سمجھنے کا موقع دیتے ہیں کہ دشمن کس طرح ہمارے رہنماؤں کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے، تاکہ ان کی آواز دبائی جا سکے اور ان کے پیروکاروں کو مایوس کیا جا سکے۔ ان شہادتوں کی گونج ہمیں ہمیشہ یاد دلاتی ہے کہ ہماری مزاحمتی تحریک کو زندہ رکھنا اور اس کی ترویج کرنا ہم سب کا فرض ہے۔
جب تک ہم اپنے رہنماؤں کی قربانیوں کو یاد رکھیں گے، ان کے راستے پر چلیں گے، اور ان کی جدوجہد کو تسلیم کریں گے، تب تک یہ تحریک زندہ رہے گی اور اس کی تاثیر اور طاقت میں کمی نہیں آئے گی۔ ان شہادتوں کے باوجود، ہمیں ان کے عزم و حوصلے کو اپنانا ہوگا تاکہ ہم اپنے عقائد کی حفاظت کر سکیں اور ان کے خوابوں کو حقیقت میں بدل سکیں۔
column in urdu tragic traffic accident
معصوم شہید جان علی شاہ اور خواجہ علی کاظم کی جنازے کے جلوس کے روٹس کی تفصیلات جاری کر دیا