ہنر سے عاری بے وقوف آدمی ! پروفیسر قیصر عباس
سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا مشہور زمانہ انٹرویو تو سیاست کی سوجھ بوجھ رکھنے والے اہل علم نے سن رکھا ہوگا جس میں وہ فرماتے ہیں کہ “چیف جسٹس کی حیثیت ایک چپڑاسی کی سی ہے ۔” تاریخی واقعات سے شغف رکھنے والے احباب کو مشہور زمانہ “شاہ زیب قتل کیس” بھی یاد ہوگا ۔ایک حاضر سروس ڈی ایس پی کے جواں سال بیٹے شاہ زیب کو ایک سندھی جاگیردار و سرمایہ دار کے بیٹے شاہ رخ جتوئی نے نشہ میں دھت ساتھیوں کے ساتھ مل کر روڈ پر فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا ۔اس قتل کا مقدمہ درج ہوا کیس چلا ڈی ایس پی صاحب مدعی تھے انہیں مختلف طریقوں سے رام کر نے کی کوشش کی گئی پھر شنید ہے کہ انہیں ان کی بیٹیوں کے ذریعے دباؤ میں لایا گیا ۔آخر کار ڈی ایس پی نے دیت لےکر” اللہ کی رضا “کے لئے قاتلوں کو معافی دے دی ۔ڈی ایس پی صاحب اپنے بیٹے کی قبر پر معافی مانگتے رہے کہ میں تمہیں انصاف نہیں دلا سکا اور نہ ہی اس نظام سے لڑ سکا ۔ پھر اک دن خبر آئی کہ یہ خاندان ملک چھوڑ کر آسٹریلیا شفٹ ہو گیا ہے ۔اس درد کو کوئی اور انسان محسوس نہیں کر سکتا کہ جس کا جواں سال بیٹا ناحق قتل کر دیا جائے اور والد محکمہ پولیس میں ہونے کے باوجود کچھ نہ کر سکے ۔خدا ہر کسی کو اولاد کے دکھوں سے محفوظ رکھے ۔ “ریمنڈ ڈیوس کیس” نے بھی ایک شہرت پائی جب ایک امریکی جاسوس نے لاہور مزنگ میں ایک نوجوان کو قتل کر دیا اور دو کو اپنی گاڑی سے کچل دیا ۔مدعیوں نے کوشش کی کہ قاتل کو سزا ملے لیکن اس وقت کے آئی ایس آئی چیف پاشا صاحب نے اپنی مدت ملازمت ختم ہونے سےایک دن پہلے ہی راضی نامہ کروا دیا۔ دو فریقین کے درمیان صلح کروا کر نہ صرف اللہ میاں کی “خوشنودی” حاصل کی بلکہ ایک سال کے لئے نوکری میں “ایکسٹینشن” بھی حاصل کر لی۔ یوں یہ کیس بھی داخلے دفتر ہو گیا ۔کوئثہ کے ایک ٹریفک سارجنٹ کا واقعہ بھی ذہن کے کسی دریچے میں جگہ بنائے ہوئے ہے جسے ایک بلوچ سردار اور ایم پی اے نے صرف اس لئے گاڑی کی ٹکر مار کر مار دیا کہ اس نے ٹریفک کے اشارے پر اسے رکنے کا اشارہ کیا تھا ۔اب موصوف ایک تو بلوچ سردار تھے اور دوسرا ایم پی اے انہیں سارجنٹ کی اس جسارت پر ایسا غصہ آیا کہ سارجنٹ کو گاڑی کے ساتھ اڑا کر رکھ دیا ۔ایسے بے شمار واقعات ہیں جو سسٹم کو ننگا کرتے ہیں مگر اس نظام سے لڑنے والے انصاف کی طلب میں قبروں میں اتر جاتے ہیں۔یہ کرپٹ نظام اتنا طاقتور ہے کہ انصاف کا متلاشی در در کی ٹھوکریں کھا کر ہتھیار ڈال دیتا ہے ۔ملک عزیز کا کوئی بھی شعبہ دیکھ لیں آپ کو کرپٹ نظام کی ایک مضبوط گرفت نظر آئے گی ۔بیوروکریسی کو دیکھ لیں ہر حکمران کے منظور نظر بیوروکریٹس متعلقہ حکمران کے دور میں ایوان اقتدار میں نظر آئیں گے جب حکمران پر زوال آتا ہے تو ساتھ ہی یہ بیوروکریٹس بھی نیب کی پیشیاں بھگتتے ہوئے نظر آتے ہیں۔عام فہم شخص کو بھی پتہ ہے کہ کون کس کے” آنکھوں کا تارا ” ہے ؟کس کی حکومت آئے گی اور بڑے صاحب پھر اپنی ایوان اقتدار میں اپنی عقل و دانش کا مظاہرہ فرما رہے ہونگے ؟اقربا پروری اس نظام کی جڑوں میں بیٹھ گئی ہے ۔وہ بندہ اس نظام میں” مس فٹ” ہے جو میرٹ کے مطابق کام کرنا چاہتا ہے ۔جوشخص میرٹ کے مطابق کام کرتا ہے اسے” ہومیوپیتھیک محکمہ” میں بھیج کر” کھڈے لائن ” لگا دیا جاتا ہے ۔لیکن جس شخص کی طبعیت میں “زمانہ سازی” ہو یا پھر اقتدار کی “فضاؤں سے شناسائی” رکھتا ہو اسے ہمیشہ” کارکردگی دکھانے “کا پورا موقع دیا جاتا ہے ۔پرچی میں بڑی طاقت ہے ہے ہمارے ہاں ۔وہ لوگ جو پرچی کی بجائے ایمانداری اور صلاحیت کی بنیاد پر کوئی مقام حاصل کرتے ہیں ان کا اس نظام کے سامنے کھڑا رہنا ایسے ہی ہے جس طرح” تیز آندھی” میں” چراغ ” روشن کرکے رکھنا ۔آخر کتنی دیر تک ایک کمزور سا دیا” منہ زور طوفان” کا سامنا کر سکتا ہے یہ بھی مشاہدہ میں آیا ہے کہ ایک نچلے درجے کا سرکاری اہلکار اپنے بڑے صاحب کو” ناکوں چنے چبوا “سکتا ہے ۔ایماندار شخص کا اگر کسی” سپولیے ” کے سر پر پاؤں آجائے تو پھر وہ شخص جتنی مرضی مضبوط ساکھ اور کردار کا مالک ہو اس کا بچنا اس نظام میں مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔نظام اتنا طاقتور ہونا چاہے کہ شخصیات کے آنے جانے سے فرق نہ پڑے ۔جہاں تک یاد پڑتا ہے ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف ایف بی آئی کی انکوائری چل رہی تھی ایک دن ڈونلڈ ٹرمپ نے ایف بی آئی کے سربراہ کو اپنے دفتر بلایا اور کہا کہ آپ میرے خلاف انکوائری بند کر دیں سربراہ نے کہا” کہ میں نے آپ سے وفاداری کا حلف نہیں لیا بلکہ یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ سے وفاداری کا حلف اٹھایا ہے۔” سربراہ ایف بی آئی نے استعفیٰ دیا بیگ اٹھایا اور گھر تشریف لے گئے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ کیا قومیں ایسے ہی بنتی ہیں؟ کیا ہمارے ہاں ایسا سوچا جا سکتا ہے کہ ایف آئی اے کا سربراہ اپنی نوکری کو لات مار کر گھر چلا جائے ؟ ہمارے ہاں تو اچھی پوسٹنگ کو حاصل کرنے کےلئے افسران بالا کے ہر جائز و ناجائز حکم پر “لبیک” کہا جاتا ہے ۔گزشتہ کالم میں میں نے سابق ایرانی نائب صدر جواد ظریف کے استعفیٰ پر بات کی تھی کیا ہمارے ہاں ایسا ممکن ہے کہ ایک شخص پر اپوزیشن اس کے بیٹوں کی شہریت کے حوالے سے تنقید کرے ٫ وہ صاحب استعفیٰ دے دیں اور عزت و وقار سے گھر چلیں جائیں ۔ہماری تو کوشش ہوتی ہے کہ ہم تادم مرگ اقتدار کے ایوانوں سے چمٹے رہیں تاوقتیکہ جناب عزرائیل تشریف لائیں اور ہمارا جنازہ بھی ایوان اقتدار سے ہی نکلے بلکہ تاریخ پڑھنے والے دوست جانتے ہیں کہ ملک عزیز کی تقدیر کا فیصلہ ایک عرصہ تک ایک فالج زدہ شخص( ملک غلام محمد )جس کی زبان کو بھی فالج ہو چکا تھا ٫کرتا رہا ۔ہمارے ہاں خوشامد ٫چاپلوسی اور” Yes Bos”ہی کامیابی کی ضمانت سمجھی جاتی ہے ۔جو بندہ اس ہنر سے عاری ہے اسے” بیوقوف آدمی” یا “سر پھرا “تصور کیا جاتا ہے اور ایسا بیوقوف ہمیشہ اپنا نقصان کرتا ہے کیونکہ وہ مندرجہ بالا ہنر کو یا تو سیکھنے کی کوشش نہیں کرتا یا پھر اس کے مزاج اور شخصیت سے یہ کام مطابقت نہیں رکھتا اس لئے کوئی اچھی پوسٹنگ کوئی اچھا عہدہ اس کے نصیب میں نہیں آتا اور اگر خوش قسمتی سے آئے بھی تو میرٹ پر کام کرنے والی بے وقوفی کی وجہ سے اس سے جلد ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ۔
پروفیسر قیصر عباس!
column in urdu