مسیحا یا گدھ ؟ پروفیسر قیصر عباس
مسیحا یا گدھ ؟ پروفیسر قیصر عباس
یوں تو ملک خدا داد میں زندگی کا ہر شعبہ ہی تنزلی کا شکار ہے ۔آپ کسی بھی شعبہ کو دیکھ لیں اسی کا ہی بیڑا غرق ہوا نظر آئےگا اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مجموعی طور پر پورے معاشرے کی اخلاقی اقدار تباہ ہو چکی ہیں شبعہ طب سے تعلق رکھنے افراد کو مسیحا کا نام دیا جاتا ہے اور یہ ہے بھی حقیقت کہ پرودگار نے انسانوں کی شفاء یابی کے لئے ان افراد کو وسیلہ بنایا ہوتا ہے ۔کسی مریض کی زندگی یا موت دراصل ان افراد کے ہاتھوں میں ہوتی ہے ۔ایسے افراد کی تھوڑی سی لاپرواہی انسان کو زندگی سے محروم کر سکتی ہے جو کہ اس کی سب سے قیمتی متاع ہے ۔انسان بیمار پڑتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی ذات کے بعد اس کی نظر اپنے معالج کی طرف ہوتی ہے کہ خداوند متعال اس کے ہاتھوں سے مجھے شفا دے گا ۔لیکن جو حالات اب ہمارے بن چکے ہیں وہ قابل رحم ہیں جب کوئی مریض ہسپتال جاتا ہے تو ڈاکٹر جو کہ ہے تو باظاہر مسیحا لیکن مریض کو بطور “کسٹمر” ڈیل کرتا ہے ۔اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ مریض کے مرض کو زیادہ سے زیادہ “طوالت” دی جائے تاکہ مریض کے لواحقین کی جیب سے زیادہ سے زیادہ پیسے بٹوررے جاسکیں۔ خصوصاً “پرائیویٹ شفاخانے ” دولت کمانے کا ذریعہ بن چکے ہیں ۔وہ ڈاکٹرز جو سرکاری ہسپتال میں اپنے فرائض منصبی سر انجام دے رہے ہوتے ہیں وہ مریضوں کو اتنا خوار کرتے ہیں کہ مریض مجبوراً ان پرائیویٹ شفاخانوں کا رخ کرتا ہے جن کے مالکان سرکاری ہسپتالوں میں ڈیوٹی دیتے ہیں۔پرائیویٹ ہسپتالوں میں موجود سٹاف “چھوٹے ملازمین” کو معمولی سی تنخواہوں پر رکھا جاتا ہے جس پر شاید ان ملازمین کا گزارہ بامشکل ہوتا ہے نتیجتاً زیادہ تر چھوٹے ملازمین مریض کے لواحقین کی طرف سے لائی گئی ادوایات میں” خرد برد”کر کے گزر بسر کرتے ہیں ۔کیونکہ بعض اوقات لواحقین سے وہ ادوایات بھی منگوائی جاتی ہیں جن کا مریض یا مرض سےدور دورکاواسطہ بھی نہیں ہوتا ۔اگر مریض” جان بلب “ہو تو لواحقین کو مریض کی جان بچانے کی فکر کھائے جارہی ہوتی ہے جب کہ سٹاف بچی ہوئی ادوایات کو “ٹھکانے لگانے” کے چکر میں مصروف ہوتا ہے ۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ادویات بھی زیادہ تر اسی ہسپتال کے اندر موجود فارمیسی سے لی گئی ہوتی ہے اور پھر آدھی قیمت پر یہ چوری شدہ ادویات واپس اسی فارمیسی پر بیچ دی جاتی ہیں ۔اس انسانیت سوز “دھندے” میں ہسپتال کی انتظامیہ ٫سٹاف اور فارمیسی تینوں شامل ہوتے ہیں ۔انتظامیہ اس لئے شامل ہے کہ چونکہ چھوٹے ملازمین کو تنخواہیں کم دیتے ہیں جس کی کسر وہ ادوایات بیچ کر پوری کرتے ہیں۔ذاتی طور پر میرا خیال ہے کہ جہاں پاکستان میں پانچ سال بعد ایک میڈیکل کے طالبعلم کو ایم بی بی ایس کی ڈگری دی جاتی ہے لیکن اس کے بعد اس کے لئے کم ازکم ایک سال کے لئے” ہاؤس جاب” لازمی ہے وہی ایک سال کے لئے میڈیکل کے طالب علم کی اخلاقی تربیت بھی کی جائے تاکہ ڈاکٹر بننے کے ساتھ ساتھ وہ انسانیت شناس بھی بن سکے ۔ سرکاری میڈیکل کالجز میں اگر کسی طالب علم کا داخلہ نہیں ہو پاتا تو پھر پرائیویٹ میڈیکل کالجز میں اس طالب علم کو کروڑوں روپے فیس کی مد میں ادا کرنا پڑتے ہیں پانچ سال بعد جب وہی طالب علم” فیلڈ” میں کام کرنے کے لئے آتا ہے تو اس نے انسانیت کی خدمت نہیں کرنی ہوتی بلکہ پہلے اپنے پیسے پورے کرنے ہوتے ہیں جنہیں وہ لگا کر ڈاکٹر بنا ہوتا ہے ۔میڈیکل کالجز کے مالکان بھی زیادہ تر کلی طور پر سرمایہ دار ہیں یاکم ازکم شئیر ہولڈر ہیں اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ سرمایہ دار معاشرے کی فلاح وبہبود کا نہیں بلکہ اپنے سرمائے کا تحفظ اور پھیلاؤ چاہتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ میڈیکل کالجز نے اپنی فیس کروڑوں میں رکھی ہے ۔شاید یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ صحت کا شبعہ پاکستان میں مہنگا ترین شبعہ ہے ۔ادوایات سے لیکر سرجری و پیوندکاری غریب کی پہنچ سے باہر ہے ۔غریب آدمی بیمار پڑتا ہے تو اس بیماری کا علاج تو موجود ہوتا ہے لیکن “قسمت کا لکھا”سمجھ کر موت کے منہ میں پہنچا دیا جاتا ہے ۔سرکاری ہسپتالوں کی یہ صورتحال ہے کہ اگر ادوایات میسر بھی ہو تو سفارش کے بغیر غریب کی پہنچ سے دور ہوتیں ہیں اور اگر غریب آدمی سرکاری ہسپتالوں کے دھکوں اور خواری سے بچنے کے لئے پرائیویٹ شفاخانوں کا رخ کرے تو وہاں موجود مسیحاؤں کی شکل میں زندہ انسانوں کو نوچنے والے گدھوں سے پالا پڑتا ہے ۔سوال یہ ہے کہ یہ لوگ مسیحا ہیں یا گدھ ؟؟
column in urdu
پہاڑوں کا عالمی دن،سنو لیپرڈ فاؤنڈیشن کا پہاڑی ماحولیاتی نظام اور جنگلی حیات کے تحفظ کا عزم