آئینی پیکج کا مستقبل! پروفیسر قیصر عباس
آئینی پیکج کا مستقبل! پروفیسر قیصر عباس
1973ء کے آئین میں اگر ترمیم کرنا مقصود ہو تو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں (قومی اسمبلی، سینٹ)کی دو تہائی اکثریت سے منظوری لازمی ہے ۔اگر دونوں ایوان اس ترمیم کی منظوری دے بھی دیں تو اس کے بعد عدالتی نظر ثانی کی تلوار لٹکتی رہتی ہے کیونکہ وہ ممالک جہاں تحریری آئین ہے وہاں عدلیہ کے پاس یہ اختیار ہے کہ اگر پارلمینٹ کوئی ایسا قانون بنا رہی ہے جو آئین سے متصادم ہے تو سپریم کورٹ اسے کالعدم قرار دے سکتی ہے ۔دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہے ہیں !
ابھی تو پہلے مرحلے میں ہی سرکار ناکام ہوئی ہے کیونکہ آئین میں ترامیم کے لئے دو تہائی اکثریت چاہے تھی اور حکومت پر اعتماد تھی کہ جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمان کو کسی نہ کسی طرح رام کرلیا جائے گا یا شاید سودے بازی کرکے اپنےنمبرز پورے کر لئے جائیں گے مگر چونکہ مولانا اس میدان کے پرانے کھلاڑی ہیں اس لئے وہ نہ تو محسن نقوی کے ہتھے چڑھے اور نہ ہی وفاقی وزیر قانون اعظم نزیر تارڑ کے ۔الٹا سرکار کی نہ صرف سبکی ہوئی بلکہ پارلیمنٹ کا اجلاس بھی ملتوی کرنا پڑا۔اب حکومت نئی صف بندی کر رہی ہے مگر گزشتہ روز مولانا فضل الرحمان پی ٹی آئی رہنما اور سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے گھر تشریف لے گئے اور واپسی پر میڈیا سے انتہائی مختصر بات کرتے ہوئے صرف یہ کہا کہ” اگر ہم نے آئینی پیکج پر حکومت کا ساتھ دیا تو یہ قوم کے ساتھ بددیانتی ہوگی “۔اب سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی تو پہلے ہی اس آئینی پیکج کو مسترد کر چکی ہے اور حکومت کا اس آئینی پیکج کو پاس کروانے کے حوالے سے واحد امید مولانا تھے جہنوں نے حکومت وقت کو “لال جھنڈی “دیکھا دی ہے ۔اب حکومت کا اگلا لائحہ عمل کیا ہو گا وہ دیکھنا پڑے گا؟دوسری طرف اعلیٰ عدلیہ میں بھی ایک اندرونی جنگ چھڑ گئی ہے ۔جسٹس منصور علی شاہ اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے درمیان ایک غیر اعلانیہ جنگ کا آغاز ہو چکا ہے ۔سب سے پہلے چیف جسٹس نے ڈپٹی رجسٹرار سپریم کورٹ کو ایک خط لکھا ہے جس میں اس فیصلے کے بارے سوالات پوچھے گئے ہیں جس کے ذریعے پی ٹی آئی کو مخصوص نشتیں دیئے جانے کا حکم صادر کیا گیاتھا ۔اس کے علاؤہ حکومت وقت نے پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے حوالے سے آرڈیننس جاری کر دیا ہے اور چیف جسٹس نے جسٹس منیب اختر کی جگہ جسٹس امین الدین کو اس کمیٹی میں شامل کر لیا ہے ۔قاضی صاحب کے ان اقدامات کے بعد جسٹس منصور علی شاہ بھی کھل کر میدان میں آگئے ہیں اور انہوں نے مخصوص نشستوں کے حوالے سے تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے ۔جس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مخصوص نشستوں کی حقدار پی ٹی آئی ہے اور اس پی ٹی آئی کو انتخابی نشان نہ دے کر اس معاملے کو الجھایا گیا ہے ۔اگر پی ٹی آئی کو انتخابی نشان دے دیا جاتا تو ممکن ہے اتنے معاملات خراب نہ ہوتے ۔اس سے پہلے الیکشن کمیشن اپنے چھوتے اجلاس میں بھی مخصوص نشستوں کے حوالے سے کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا ۔سپیکر قومی اسمبلی نے قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن واضح کر کے خط لکھ دیا ہے اس خط میں پی ٹی آئی کو بطور پارٹی قومی اسمبلی سے فارغ کر دیا گیا ہے جب کہ 80سیٹیں سنی اتحاد کونسل کے کھاتے میں ڈال دی گئی ہیں ۔قومی اسمبلی کے سپیکر کے خط کے بعد پنجاب اسمبلی کے سپیکر ملک محمد احمد خان نے بھی ایسا ہی خط الیکشن کمیشن کو بھیج دیا ہے ۔اب کھیل تھوڑا وسعت اختیار کر گیا ہے صرف بات آئینی پیکج تک محدود نہیں رہی ۔ایک طرف آئینی عدالت کا قیام اس کے بعد قاضی فائز عیسیٰ کی ملازمت میں توسیع حکومت کا دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کی جد وجہد اور پھر جسٹس منصور علی شاہ کا راستہ روکنے کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کو مخصوص نشستوں سے محروم کرنا سب اس کھیل کا حصہ ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کی منصوبہ بندی کام یاب ہوتی ہے یا پھر قدرت کی منصوبہ بندی ۔ویسے دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ جہاں انسان اور قدرت مد مقابل ہوں ٫ وہاں جیت قدرت ہی ہوتی ہے ۔
پروفیسر قیصر عباس. column in urdu