طبل جنگ ! پروفیسر قیصر عباس
طبل جنگ ! پروفیسر قیصر عباس
سیاست کے میدان کارزارِ میں طبل جنگ بج چکا ہے ۔دونوں حریف اپنے لشکر کی میمنہ ٫میسرہ اور قلب لشکر کو ترتیب دے چکے ہیں ایک عصابی معرکہ رونما ہونے والاہے اور جیتے گا وہی جس کی اعصاب مضبوط ہونگے ۔کسی بھی جہموری ملک میں حکومت کے تین شعبے ہوتے ہیں یا یوں سمجھ لیں کہ حکومت تین اداروں سے مل کر بنتی ہے پہلا مقننہ ٫دوسرا انتظامیہ اور تیسرےادارے کو عدلیہ کہتے ہیں ۔مقننہ جسے عرف عام میں پارلیمان کہا جاتا ہے عوامی نمائندوں پر مشتمل ہوتی ہے اس کا اولین فرض عوام کے لئے قوانین تشکیل دینا ہے۔ اگر ملک میں پارلیمانی نظام ہو تو انتظامیہ کا تعلق بھی اسی پارلیمان سے ہوتا ہےلیکن ملک میں صدارتی نظام ہو تو مقننہ اور انتظامیہ میں اس طرح کی ہم آہنگی نہیں پائی جاتی مقننہ اور انتظامیہ آپس میں سودے بازی کے ذریعے” کچھ لو اور کچھ دو “کی پالیسی اختیار کر کے معاملات کو آگے بڑھاتیں ہیں ۔سب سے اہم ذمہ داری عدلیہ کی ہے اگر ملک میں تحریری آئین ہو تو تشریح طلب آئینی معاملات کی تشریح عدلیہ کی ذمہ داری ہے اور اگر ملک میں غیر تحریری آئین نافظ ہو تو آئین کی تشریح کی ذمہ داری پارلیمان کے پاس ہوتی ہے یاد رہے کہ غیر تحریری آئین صرف برطانیہ میں نافظ ہے۔ہمارے ہاں بھی تحریری آئین ہے اور اسی کے ساتھ پارلیمانی نظام ہے۔ کسی بھی آئینی ترمیم کے لئے پارلیمنٹ (قومی اسمبلی اور سینیٹ) کی دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے ۔اج کل ملک میں ایک نئی آئینی ترمیم کی بازگشت ہے ۔باخبر ذرائع کے مطابق موجودہ حکومت آئین میں ایک آئینی ترمیم کرنا چاہتی ہے جس کے ذریعے ایک نئی عدالت کی تشکیل ہوگی جس آئینی سپریم کورٹ کا نام دیا جائے گا اور یہ عدالت چیف جسٹس سمیت پانچ ججز پر مشتمل ہوگی اس عدالت کے دائرہ اختیار میں وہ تمام معاملات شامل ہونگے جن کا تعلق آئین سے ہوگا۔یعنی عوامی مفادات اور مقدمات کے لئے ایک علیحدہ عدالت ہوگی اور آئینی موشگافیوں کو حل کرنے لئے ایک علیحدہ سے عدالت تشکیل دی جائے گی۔یہ پہلی دفعہ نہیں ہو رہا اس سے پہلے بھی پاکستان میں دو طرح کی اعلیٰ عدلیہ موجود ہے ایک سپریم کورٹ اور دوسری وفاقی شرعی عدالت۔ وفاقی شرعی عدالت فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق نے بنائی تھی اور ان تمام ججز کو جنہیں جنرل ضیاء الحق ناپسند کرتے تھے انہیں اس” ہومیو پیتھک “عدالت میں بھیج کر جان چھڑا لی گئی تھی اس کے بعد باظاہر سویلین نظر آنے والی حکومتوں نے بھی یہی طرز عمل اختیار کئے رکھا اور ان ججز کو نشان عبرت بنا کر اس عدالت میں بھیجاگیا جنہوں نے مقتدر حلقوں کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہونے سے انکار کیا اور کاسہ لیسی کی بجائے جرات اظہار کیا۔گزشتہ روز نئی آئینی ترمیم کے لئے وفاقی کابینہ نے منظورہ دے دی ہے جب کہ گورنمنٹ کی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی نے اس آئینی ترمیم کی تیاری میں اپنا اہم کردار ادا کیا ہے بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی اس کی حمایت میں قائل کرنے کی کوشش کی ہے ۔ذرائع کے مطابق آئینی عدالت میں آئین کے آرٹیکل 184٫185اور 186سے متعلق درخواستوں کی سماعت ہوگی ٫آئینی عدالت کی تشکیل میں چاروں صوبوں اور وفاق کے ججز کی نمائندگی کی بھی تجویز زیر غور ہے٫آئینی عدالت میں صوبوں کی طرف سے آئین کی تشریح کے متعلق معاملات بھی زیر غور آسکیں گے ۔پیپلزپارٹی کے مطالبے پر میثاق جمہوریت کے تحت آئینی عدالت کے قیام کو آئینی پیکج کا حصہ بنایا جارہا ہے۔موجودہ حکومتی اتحاد نے آئین کی شق 63 اے میں بھی ترمیم کا فیصلہ کیا ہے وزیراعظم شہباز شریف نے نہ صرف اتحادی جماعتوں کو اعتماد میں لیا ہے بلکہ انہوں نے جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمان سے بھی ملاقات کی ہے اور ان سے اس آئینی ترمیم کے حوالے سے مدد کی درخواست کی ہے دوسری طرف مولانا فضل الرحمان کا موقف بھی سامنے آیا ہے کہ یہ ترمیم ادارے کے لئے ہونی چاہئے نہ کہ “فرد واحد” کےلئے یہاں فرد واحد سے مراد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہیں جن کی مدت ملازمت میں حکومتی اتحاد توسیع کرنا چاہتا ہے۔دوسری طرف کا بھی منظر نامہ بڑا دلچسپ ہے حزب اختلاف خصوصاً پی ٹی آئی اس آئینی پیکج کے خلاف ہے معاملہ بڑے ہی دلچسپ مرحلے میں شامل ہو چکا ہے حکومتی اتحاد کے پاس نمبرز پورے نہیں اس آئینی ترمیم کے لئے دو تہائی اکثریت چاہے اگر حکومتی اتحاد پی ٹی آئی کے ممبران اسمبلی کو توڑنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ پی ٹی آئی ممبران اسمبلی جو اپنی جماعت کی پالیسی کے خلاف ووٹ دے گے ان کاووٹ ایک عدالتی فیصلے کے تحت شمار نہیں کیا جائے گا۔سب سے دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ چند ایک ممبران اسمبلی کے علاؤہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق جو لوگ 8 فروری کے الیکشن میں بطور آزاد امیدوار جیتے تھے ان کو پی ٹی آئی کو جوائن کرنے کے بارےکہا گیا اور یہ لوگ پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے ۔اگر یہ ممبران اسمبلی آزاد ہی رہتے تو یہ آئینی ترمیم میں اہم کردار ادا کرسکتے تھے اور ان کو توڑا بھی جاسکتا تھا لیکن چونکہ اب وہ پی ٹی آئی میں شامل ہوچکے ہیں اس لئے پارٹی پالیسی سے نہ تو روگردانی کر سکتے ہیں اور نہ ہی منحرف ہو سکتے ہیں ۔اب کس طرح حکومتی اتحاد اس سنگ میل کو عبور کرتا ہے؟ یہ منظر آنے والے دنوں میں نمایاں ہو جائے گا ۔ابھی تو بس اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ دونوں اطراف کے لشکر اپنی صفیں درست کر چکے ہیں اور طبل جنگ بج گیا ہے
پروفیسر قیصر عباس!
آئی فون 16 کے متعارف ہونے چند گھنٹے بعد ہواوے کا بھی بہترین فون مارکیٹ میں لاؤنچ کر دیا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کا اہم فیصلہ ، آئینی ترامیم میںبڑی رکاوٹ کھڑی ہو گئی،