دست برداری! پروفیسر قیصر عباس!
دست برداری! پروفیسر قیصر عباس!
جن ممالک میں بھی جمہوری نظام موجود ہے وہاں دو طرح کے نظام موجود ہیں ایک پارلیمانی طرز حکومت اور دوسرا صدراتی طرز حکومت ۔پارلیمانی طرز حکومت کے حامل ممالک برطانیہ کی نقل کر رہے ہیں جب کہ صدارتی نظام کے حامل ممالک امریکہ کی پیروی کر رہے ہیں ۔اس سال نومبر کے مہینے میں امریکہ میں صدارتی انتخابات ہونے جارہے ہیں۔چونکہ امریکہ میں دوجماعتی نظام ہے ایک پارٹی کا نام ریپبلکن پارٹی ہے جس کا انتخابی نشان ہاتھی ہے جب کہ دوسری پارٹی کا نام ڈیموکریٹک پارٹی ہے جس کا انتخابی نشان گدھا ہے۔موجودہ صدر جو بائیڈن کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے جب کہ ان کی نائب صدر کملا ہیرس ہیں ۔نومبر میں منعقد ہونے والے انتخابات میں جو بائیڈن نے بطور صدرِ حصہ لینے سے دستبرداری کا اعلان کر دیا ہے ۔اور اب ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے کملا ہیرس بطور صدارتی امیدوار الیکشن میں حصہ لے گی یاد رہے اس سے پہلے باراک حسین اوباما کے مقابلے میں ہنری کلنٹن نے صدر کے امیدوار کے لئے پرائمری الیکشنز میں حصہ لیا مگر وہ اپنی پارٹی کی نامزدگی حاصل کرنے میں ناکام رہی۔لیکن 2016 ء کے صدارتی انتخابات میں آخر کار ہیلری کلنٹن ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار نامزد ہو گئی مگر انہیں ڈونلڈ ٹرمپ سے شکست ہوئی ۔اب کملا ہیرس ہیلری کلنٹن کے بعد دوسری خاتون ہیں جو پرائمری الیکشن جیت کر ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے صدارتی امیدوار بن گئی ہیں بلکہ امریکہ میں ہونے والے سروے کے مطابق کملا ہیرس کو ریپبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ پر 2فیصد برتری بھی حاصل ہو گئی ہے ۔ایک سروے کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کو 42 فیصد ووٹ ملے ہیں جب کہ کملا ہیرس کو 44فیصد ووٹ حاصل ہوئے ہیں نومبر میں ہونے والے انتخابات میں اگر کملا ہیرس الیکشن جیت جاتی ہیں تو وہ امریکی تاریخ کی پہلی خاتون صدر بن جائیں گی ۔لیکن سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے۔موجودہ صدر جو بائیڈن کو ان کی اپنی ہی پارٹی ڈیموکریٹک پارٹی نے صدراتی دوڑ سے دستبردار کروالیا ہے پارٹی کے اس فیصلے کو جو بائیڈن نے قبول کیا ہے ۔سوال یہ ہے کہ اتنے طاقتور ملک کے صدر کو الیکشن میں حصہ لینے کے حوالے سے کس طرح دستبردار کروا لیا گیا؟ جو بائیڈن نے نہ کوئی احتجاج کیا نہ ہی اس بات کا اظہار کیا کہ اگر میں نے انتخابات میں حصہ نہ لیا تو امریکی جمہوریت کو خطرہ لاحق ہو جائے گا یا جمہوریت کی گاڑی پٹڑی سے اتر جائے گی نہ ہی جو بائیڈن نے یہ کہاکہ میرا وجود سے جمہوریت کا وجود امریکہ میں برقرار رہے اگرمیں صدارتی امیدوار نہ بنا تو امریکہ میں جمہوریت ختم ہو جائے گی ۔جوبائیڈن نے یہ بھی نہیں کہا کہ اگر میں ملک کا صدر نہ بنا تو امریکہ کا بطور ریاست بقاء ممکن نہیں ہے۔ نا ہی یہ کہا کہ امریکہ میری وجہ سے ترقی کر رہا ہے اگر میں صدر نہ بنا تو یہ ترقی تنزلی میں تبدیل ہو جائے گی ۔جو بائیڈن نےامریکہ کا صدر بننےکے لئے پینٹاگون کے گیٹ نمبر چار(یاد رہے پینٹاگون امریکی فورسز کا ہیڈ کوارٹر ہے)پر دستک بھی نہیں دی.بلکہ اس کے برعکس بڑی عزت و وقار کے ساتھ پارٹی کا فیصلہ خوش دلی سے قبول کرتے ہوئے صدارتی انتخابات میں بطور صدارتی امیدوار دستبرداری کا اعلان کر دیا ہے۔دوسری طرف جو بائیڈن کے حمایت یافتہ ووٹرز نے نا سڑکوں پر ٹائر جلا کر مرکزی شاہراؤں کو بلاک کیا٫نہ ٹریفک روکی ٫ نہ احتجاجی جلوس نکالے نہ ہی نیوریاک کے کسی چوک میں دھرنا دیا ۔نہ ہی اپنے ملک کی املاک کو جلایا اور نہ ہی کسی قسم کی توڑ پھوڑ کی بلکہ خوش اسلوبی سے یہ فیصلہ قبول کیا اب نومبر میں غالب امکان ہے کہ امریکہ میں صدر کے لئے مقابلہ دو امید واروں کے درمیان ہوگا ایک کملا ہیرس اور دوسرے ڈونلڈ ٹرمپ چونکہ صدارتی انتخابات کے بعد اگلےسال جنوری کی 20 تاریخ کو منتخب صدر حلف اٹھاتا ہے اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی ایک بطور امریکہ کے صدر کے حلف اٹھائے گا۔جوبائیڈن کی دستبرداری اور امریکی قوم کا رویہ یہ بتا رہا ہے کہ جمہوریت کی تعریف کتابوں میں لکھنے سے ملک میں جمہوریت مضبوط نہیں ہوتی بلکہ جمہوریت کی مضبوطی کے لئے جمہوری اقدار اور جمہوری رویوں کی ضرورت ہوتی ہے جن کا ابھی ہمارے ہاں فقدان ہے .
پروفیسر قیصر عباس!
اسکردو ہوٹل میں ایک جانبحق یا دو بے ہوش ، معمہ بن گیا، حقیقت سامنے آگئے.
شگر ، کے ٹو ریسکیو مشن کامیاب ۔، کوہ پیما محمد حسن شگری کا نعش شگر پہنچ گئے ،میت آبائی گاوں روانہ
urdu news, column in urdu