پاکستان کی سیاست ایک عجوبے سے کم نہیں
پاکستان کی سیاست ایک عجوبے سے کم نہیں ۔
بات کرتے ہیں آج پاکستان کی سیاست کی جو ایک معمہ ہے اور تمام حقاٸق کو مد نظر رکھنے کے باوجود بھی تجزیہ کار پیشن گوٸی نہیں کرسکتے ۔جیسے ہم عجوبے کے بارے میں کوٸی بات کہ نہیں سکتے ۔اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتا ہے کہ آج تک کوٸی بہھی وزیر اعظم اپنی مددت یعنی پانچ سال مکمل نہیں کرسکا ۔آج تک کوٸی انتخابات شفاف نہیں ہوسک جس پر کسی سیاسی جماعت کو اعتراض نہ ہو ۔نتاٸج کو کوٸی نہ کوٸی کسی طرز پر بھی الجا دیتے ہیں ۔اس بات میں کوٸ شک نہیں کہ اب ملک میں جمہوریت پنپنے لگی ہے اور یہ مسلسل تیسری جمہوری دور گزر رہا ہے ۔مگر ان ادوار میں بھی صورتحال اونچ نیچ کا شکار ہوتی رہی ۔سیاسی گہما گہمی اور تیسرے فریق کی مداخلت کی بات عمومأ زد عام ہوجاتی ہے اور سوشل میڈیا پر سارفین اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں وہی کبھی دھرنوں کی دھمکی اور مزاکرات کی باتیں عام ہوجاتی ہیں ۔آج تک کسی سیاسی جماعت نے ہی بات کہنے کی اخلاقی مظاہرہ نہیں کیا کہ آج سے ہم صرف ملکی مفاد کی خاطر کام کریں گے ۔بلکہ جو بھی اقتدار کی کرسی سے چپک جاتا ہے وہ یہی کہتا ہے کہ فلاں نے یہ کام غلط کیا اور ہم اس کو عدالتوں میں پیش کریں گے ۔غرض ایسا لگتا ہے کہ ہر پارٹی ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کی جتن میں لگی رہتی ہے ۔موجودہ صورتحال کی بات کرلیں تو سابقہ وزیر اعظم نے جب اقتدار سنبھالی تو بجاۓ مفاہمت کے مقابلے کی باتیں کیں ۔اور سیاسی جماعتوں کی جتنی ناک کٹانی تھی ۔کوشیش کی اور تیسرے فریق کو بھی اپنا بنانے کی کوشیش کی ۔تب ہر شخص کی تجزیہ یہی تھی کہ اب یہ وزیر اعظم اپنی مددت پوری کرے گا ۔ہر کوٸی انھی کو سپورٹ کر رہا تھا ۔جب عدم اعتماد کی بات آٸی تو لوگوں نے مزاق میں کہا کہ کانپیں ٹانگ رہی ہے اور انہیں بھی مکمل اعتماد تھا کہ وہ ہی ہی بازی جیتیں گے ۔مگر اگر مگر والی صورتحال نظر آٸی اور بقول شاعر ۔یہ لوگ اوروں کے دکھ بانٹنے نکل آۓ ہیں سرکوں پر ۔ اگر اپنا بھی غم ہوتے تو یوں دھرنے نھیں دیتے ۔۔۔خود کے دور میں تو دھرنوں کو معیشت کی ترقی کے خلاف سازیش قرار دیا مگر آج کا دھرنا حقیقی آزادی کا ضامن قرار پایا ۔اور نتیجہ بلکل توقعات کے برعکس نکلا ۔اور کسی نے نکالنے پر یہ نعرہ بلند کیا تھا کہ مجھے کیوں نکالا ۔اب نعرہ ہی تھا کہ Regime change کیوں کیا ۔اور عدالتیں رات کے بارہ بجے کیوں کھولی ۔خیر اب کچھ معتبر تجزیہ کار کہتے ہیں کہ یہ ایک معما ہی ہے کہ آج تک کوٸی وزیر اعظم مددت مکمل نہیں کر پایا ۔یا وہ کون سا خوش نصیب شخص ہوگا جو تاریخ میں یاد رکھا جاۓگا کہ یہ ایک کارنامہ انجام دے گا اور پانچ سال مکمل کرے گا ۔سابق وزیر اعظم نواز شریف جب نا اہل قرار پاۓ تو بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوۓ اپنی آخری خواہش کا اظہار اپنے ان الفاظ میں کیا کہ کاش کوٸی تو ہو جو پانچ سال مددت مکمل کرے ۔اب بھی ہم کچھ پیشن گوٸی کرنے سے قاصر ہیں کہ آنے والے دنوں میں کیا ہوگا کہا نہیں ہوگا ۔کون کس پے مہربان ہوگا ۔یہ وہ سوالات ہیں جو آنے والے وقت ہی ہمیں بتاۓ گا ۔