حضرت علیؑ سُپر مین آف دی اسلام ہیں- علی اصغر
دنیا کے کسی بھی فیلڈ میں کوئی نا کوئی ایسا شخص ضرور ہوتا ہے جس سے وہ فیلڈ مشہور ہوجاتا ہے، حالانکہ ہوتا یہ ہے کہ اس شعبہ سے جڑے افراد اپنے پروفیشن کی وجہ سے ناموری پاجاتے ہیں مگر بعض خوش نصیب انسان ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی مثال آپ ہوتے ہیں، اسی طرح بعض ایسے کھلاڑی بھی ہیں جن کے کھیل کی وجہ سے دنیا میں وہ کھیل مقبولیت حاصل کرلیتا ہے، آپ کسی بھی عرب ملک میں چلے جائیں وہاں فٹ بال ہی پسندیدہ کھیل ہے اس کی وجہ مشہور کھلاڑی میسی یا رونالڈو ہیں، ، اسی طرح فلمی دنیا میں کئی ایسے چہرے ہیں جو اس ملک یا انڈسٹری کی پہچان بنے، سائنس کے شعبہ میں مسلمان سائنس دان اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں، فزکس، کیمسڑی کا تعارف مسلمان سائنسدان ہی بنے، تاریخ میں بڑے بڑے جنگجو بھی گزرے ہیں، پل بھر میں میدانِ جنگ کا نقشہ بدل دینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل سمجھا جاتا تھا.
سترہ شوال کو مدینہ منورہ میں اسلام کی دوسری بڑی جنگ لڑی گئی جسے جنگِ اُحد کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، میں جب پہلی بار مدینہ منورہ گیا تو زیارات کروانے والا ہمیں احد پہاڑ کے پاس لےگیا وہاں ایک چھوٹی پہاڑی پہ لوگ سیلفیاں لے رہے تھے میں نے پوچھا اس جگہ کی کیا خاصیت ہے؟ یہاں رش کیوں ہے تو اس نے بتایا یہ وہ مقام یے جہاں آپؐ نےمسلمانوں کو پہرہ پہ کھڑا کیا اور یہ جگہ نا چھوڑنے کی تنبیہ کی،مگرمسلمانوں نے یہ جگہ چھوڑ دی اور بھاری نقصان اٹھایا، اسی اثناء میں یہ بات مشہور کردی گئی کہ نعوذوباللہ آپؐ شہید کردئیے گئے مسلمانوں کے حوصلے مزید پست ہوگئے، نبی پاکؐ کے دندان مبارک شہید ہونے کے بعد علیؑ قریب ہی ایک غار میں لے گئے جو آج بھی موجود ہے اور عاشقانِ نبیؐ و علیؑ کے لئے روحانی تسکین کا مرکز ہے۔ اسی مقام پہ امام علیؑ کو تلوارِ ذولفقار بھی عطاء کی گئی، علیؑ نے واپس آکرنبی پاکؐ کی خیریت کی اطلاع دی اور پھر علیؑ نے ذولفقار سے کفار کے پرخچے اڑائے، بدر سے لے کر صفین تک علیؑ ہر میدان کے فاتح ٹھرے،
بدر میں کفار کی صفوں کے کشتے کے پشتے لگائے، احد میں ذولفقار سے دشمن کی صفوں کو چیر کر حیدر صفدر بنے، خندق کی ایک ضرب ثقلین کی عبادات سے افضل کہلائی، خیبر میں نبیؐ سے عٙلم لے کر شاہِ مرداں نامزد ہوئے، صفین میں قرآن نیزوں پہ اٹھانے والوں کی موت کا سبب بنے اور جمل میں دشمن کو عزت دے کر علیؑ سردار الاشراف کہلائے۔
ارتغرل سیریز میں ایک جملہ باربار دہرایا گیا ہے کہ ذولفقار جیسی تلوار کوئی نہیں اور علیؑ جیسا بہادر کوئی نہیں، ہم نے امام علیؑ کو صرف بہادر ہی جانا ہے اور علیؑ کے بہادری کے قصے بچوں کو سنا کر ان کے دلوں سے خوف کا خاتمہ کرتے ہیں، مگر علیؑ صرف جنگو نہیں علیؑ ایک انسانِ کامل ہیں، علیؑ منبر پہ ہوں تو ان جیسا خطیب کوئی نہیں، علیؑ عدالت کرنے پہ آئے تو ان جیسا عادل کوئی نہیں، علیؑ حکمت سنانے پہ آئے تونہج البلاغہ جیسے خطبات سنا کر قیامت تک کے انسانوں کو حیران و پریشان کردے، علیؑ عبادت پہ آئے تو فرشتوں کو محوِ حیرت کردے، علی میدانِ جنگ میں آئے تو دشمن کا خون اپنے ایک اشارے سے منجمد کردے، علیؑ باپ کی صورت میں آئے تو حسنینؑ و عباسؑ جیسے سرداربنا ڈالے، علیؑ شوہربنے تو خاتونِ جنت انکی کنیزی میں آنے پہ فخر کرے اور علی اگر صبر پہ آئے تو اندھیری رات میں اپنی زوجہ کو تنہاء دفن کرکے قبر کا نشان مٹا دے۔
علیؑ نےزندگی کے ہر میدان میں فتح کا عٙلم بلند کیا مگر کبھی اپنے فاتح ہونے پہ فخر نہیں کیا نا ہی اپنی کامیابی کا اعلان کیا ہاں مگر انیس رمضان کی فجر حالتِ سجدہ میں سر پہ تلوار کی ضرب کھانے کے بعد اعلان کیا رب کعبہ کی قسم علیؑ کامیاب ہوگیا۔
لوگ کسی ایک شعبہ میں ماہر ہوتے ہیں جبکہ علیؑ بعد ازنبی کریمؐ زندگی کے ہر شعبہ میں استاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔
علیؑ صرف مین آف دی وار نہیں بلکہ علیؑ سُپر مین آف دا اسلام ہیں۔