بلتستان میں بڑھتی ہوٸی بے روزگاری اور اس کا حل
بلتستان میں بڑھتی ہوٸی بے روزگاری اور اس کا حل
۔اگر چہ ہم اپنا علاقہ بلتستان پر ایک سرسری نگاہ ڈالیں تو ہمیں اس بات کا اندازہ اچھا خاصا ہوجاتا ہے کہ بتستان مکمل طور پر بدل چکا ہے ۔اس دیس میں اب تعلیمی شرح تقریبأ ١٠٠ فیصد ہوچکی ہے اور ماسٹرز کی ڈگری ہولڈرز کی اب کوٸی کمی نہیں رہی ۔اول تو اس علاقے میں ایک عام کارخانہ تک موجود نہیں ہے جو روزگار مہیا کرسکے اور دوسری بات آدھے سے بھی زیادہ آبادی کا تعلق کھیتی باڑی سے ہے جو سال میں صرف ایک بار کی جاتی ہے اور باقی کے چار مہینے سردی کی راج ہوتی ہے اور ایسے میں مزدوری بھی بہت مشکل بن جاتی ہے ۔ہم صرف آج اس علاقے میں پڑھے لکھے بےروزگاروں کے بارے میں بتانا چاہتے ہیں ۔ہر سال مختلف جامعات سے مختلف مضامین میں ماسٹرز مکمل کرنے والوں کی ایک قطار لگی نظر آتی ہے ۔اور وہ روزگار کی تلاش میں اپنے ڈگریز لیۓ در بدر کی ٹھو کریں کھاتے ہوے نظر آتے ہیں ۔اس علاقے میں کوٸی منصوبہ بندی نہیں ہے جہاں سے اس بے روزگاری کا خاتمہ کرسکیں.اب ہم اگر اصل محرکات کا جاٸزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اصل بے روزگاری کی وجہ ناقص حکمت عملی ہے ۔یہاں کے طالب علموں کو صرف تعلیم کتابی طوطا بنانے کی حد تک اور امتحان میں نمبرز لانے کی حد تک دی جاتی ہے ۔اور کیریر کونسلینگ کا فقدان پایا جاتا ہے ۔اور بیشتر طالبعلم محض مختلف جامعات میں داخلہ اس لیۓ لیتے ہیں کہ اب اس کے علاوہ اور کوٸی چارہ نہیں ۔تعلیم کا مقصد ہرگز ہی نھیں ہے کہ صرف نوکری ملنے والے کی تعلیم ہی اچھی تھی ۔بلتستان میں پڑھے لکھے طبقہ محنت مزدوری اور کھیتی باڑی کرنے کو ایک عار سمجھتے ہیں اور یہاں کے کے باشندے نجی اداروں میں کام کرنے والے افراد کو روزگار والوں کی فہرست میں بھی شامل نہیں کرتے ۔بس یہی کہتے ہیں کہ روزگار کا مطلب ہی ہے کہ سرکاری نوکری ہو اور تنخواہ چلتے رہے ۔طالب علموں کو اس بات کی اہمیت پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے کہ بےروزگاری کا خاتمہ حکومت نہیں بلکہ ہم خود ہی کرسکتے ہیں ۔اور بہترین طریقہ اس کا کاروبار ہے ۔اب کاروبار ایک دن میں نہیں چمکتا بلکہ اس کے لیۓ بھی آپ کو وقت دینا پڑتا ہے ۔ایسے علوم کی جانب ہمیں اپنی نسلوں کو گامزن کرنے کی اشد ضرورت ہے جس سے وہ کم وقت میں اپنی عملی زندگی میں کامیابی کے ساتھ قدم رکھ سکے ۔ہنر مند کام سیکھانے کی اشد ضرورت ہے اور اس مقصد کے لیۓ تکنیکی جامعات کی تعمرات میں حکومت کو کمر بستہ کی ضرورت ہے ۔بےروزگاری کے لیۓ حکومت ایسے پالیسیز تشکیل دے جس سے نوجوانوں کو مواقع ملے ۔مثلأ سود سے پاک قرضے فراہم کرے اسی طرح باہر ممالک میں روزگار دیلانے کے لیے عالمی سطح پر اقدامات کرے ۔جامعات کی پالیسیز پر نظر ثانی کرے ۔ان جامعات سے پاس آوٹ ہونے والے طلبا کے معیار کو بلند کرے تاکہ ڈگریز کے ٹکرے لے کر مارکیٹ میں آنے والے امید واروں کی تعداد کو روک سکے ۔وگرنہ وہ دن دور نہیں جب پی ایچ ڈی کی ڈگری حولڈرز جگہ جگہ دس یا پندرہ ہزار میں پڑھانے پر مجبور ہوجاۓ اور آنے والی نسل ان کو دیکھ کر تعلیم جیسی زیور سے گوشہ نشینی اختیار کریں ۔اور ملک کے نوجوان جامعات سے فارغ ہونے پر بےروزگاری کی جشن مناٸیں ۔