صبح بہاراں – کمیل شگری

چھٹی صدی کا آخر تھا ۔یہ صدی جاہلیت کے عروج کی صدی تھی، دنیا کے بڑے بڑے مذاہب ناکام ہوگئے تھے۔انسان کی بے راہ روی اور فسادات کا کوئی علاج ان کے پاس نہ تھا چند بے جان رسموں کا نام مذہب اور بت پرستی کا نام عبادت تھا ہر طرف ظلم وستم کا راج تھا ۔ انصاف کا نام ونشان نہ تھا، نہ خالق کی عبادت تھی ۔نہ معبود کی پہنچان ۔نہ علم تھا نہ عمل، تہذہب تمدن تھا نہ اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے کا سیلقہ و ادب، نہ ماں کے مقام و منزلت پتہ تھا نہ بیٹی کی عظمت و برکت، یتموں کا سہارا تھا نہ غریبوں کا مولا، ہر شخص قوم قبیلے کی افضیت اور دولت کی نشے میں مست تھا، عرب رگستان تھا ۔لوگ رہزن تھے، خانہ بدوش تھے، گھوڑے کو پانی پلانے کے معاملے میں سال ہا سال تک لڑتے جگھڑتے تھے دشمنیاں تھی، محبت الفت، عزت ،بھائی چارے کا دور دور تک نام نشان نہ تھا معاملہ کسی ایک ملک، ایک علاقہ اور ایک شہر کا نہیں بلکہ بحر و بر میں ہر جگہ فساد ہی فساد تھا ۔یوں محسوس ہوتا تھا کہ پوری نوع انسانی نے خود کشی کی قسم کھا رکھی ہے ۔اور انسان اب زندہ رہنا نہیں چاہتا ۔تب کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے جن سے دنیا والوں نے اندازہ لگایا کہ ظلم کی طویل شب رخصت والی ہے ۔چند نشانیاں ظاہر ہوئی جن سے ثابت ہوتا تھا کہ باران رحمت برسنے والی ہے، غریبوں مسکینوں اوریتیموں کا آسارا، سہارا اور مولا کی آمد قریب ہے اور ایسا کیوں نہ ہوتا اب تو رحمت کی وہ بارش برسنے والی تھی جس کے لئے ارض وسماء اور ساری مخلوق انتظار تھی ۔اس صبح بہاراں کا انتظار ان بچیوں کو تھا جنہیں زندہ درگور کردیا جاتا تھا، اس دن کا انتظار ان مظلوں کو تھا جن کی داد رسی کرنے والا کوئی نہیں اس دن کا انتظار ان لوگوں کو تھا جو اپنے ہاتھوں سے لکڑی یا پتھر کا مجسمہ بنا کر ان کی بوچا اور پرستش کرتا تھا ،اس نور ک آمد کا انتظار عرب کے ان جہالت میں ڈھوبے ہوئے لوگوں کو تھا جن کو تہذیب تمدن تھا نہ امن و بھائی چارہ ۔بالا آخر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئی مہنے یک کے بعد دیگر آتے رہے. جب ربیع الاول کا مبارک مہینہ پہنچتا ہے ۔ہر طرف نور چھا جاتا ہے. دریا سمندر، ندیاں،چاند تارے کہکشاں انسان حیوان چرند پرند، سبزہ کھیتاں، پہاڑ جنگل گلستان، امیر غریب ،چھوٹا بڑا، مروزن سب میں خوشی کی لہر اٹھتی ہے. ہر سو یہ شور ہوتا ہے.
نور ولا آیا ہے نور لیکر آیا ہے سارے عالم میں یہ دیکھو کیسا نور چھایا ہے

50% LikesVS
50% Dislikes

4 تبصرے “صبح بہاراں – کمیل شگری

اپنا تبصرہ بھیجیں