حسینیت کیا ہے؟

حسینیت کیا ہے؟
حسینیت ایک طرزِ زندگی ہے، عمل ہے، ضابطہ حیات ہے ، حق و صداقت کا رستہ ہے جو ہمیشہ باطل سے جدا رہتا ہے۔ یہ کسی فرد یا گروہ کا نام نہیں ہے یہ بیک وقت کیفیت ، حقیقت اور حق کا نام ہے اس میں گہرائی و گہرائی پائی جاتی ہے جس کو محسوس کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ مخصوص کرنے کی حماقتیں ہوتی رہیں ۔ حسینیت کو مخصوص گروہ کی روایت سے منسلک کر دینا یقیناً زیادتی ہوگی. اس لفظ کی آفاقیت کو برقرار رکھا جائے تاکہ انسانیت کا مفہوم واضح طور پر حسینیت میں سما سکیں۔ کربلا جس مقصد کے لیے برپا ہوا تھا اس مقصد کو پیش نظر رکھا جائے تاکہ روایات و حکایات سے کنارہ کش ہو کر باعمل انسان کی صورت فکرِ حسین کو سمجھ کر اس پر بغیر کم و بیش عمل کر سکیں ، ورنہ خاک اڑائیں یا سر پھوڑیں یا سڑکوں کی زینت بڑھائیں ، کوئی مثبت اثرات مرتب نہیں ہونے والا بلکہ منفی اور تقلیدی سوچ کی عکاسی ہوتی رہے گی۔ روز رسم و رواج کی پاسداری ہوتی رہے گی اور مقصدِ حسین کا اثر زائل ہوتا رہے گا جو کہ حسینیت کو مثبت انداز میں پروان چڑھانے میں رکاوٹ بنی رہے گی۔
ہم سب ایک ہی کشتی کے مسافر ہیں ہم نے دعووں کی ذمہ داری لی ہے اسی لیے ہر قسم کے دعوے ہمارے ہاں پائے جاتے ہیں، مگر عمل سے دور بھاگنے کی قسم کھائی ہے جس وجہ سے بے عملی کا تمغہ دنیا کی طرف سے ہمیں دیا جائے گا۔ بحث و مباحثے کی ضرورت کو ہم نے ضرورت سے زیادہ استعمال کر رکھا ہے، فتوؤں کی فراوانی پائی جاتی ہیں ، غیر ضروری اختلافات کی بنیاد پر عمارت کھڑی کردی گئی جس سے ایک دوسرے سے مختلف نظر آنے کا احساس ہوتا ہے حالانکہ اس قسم کے اختلافات کو ختم کرنے سے مطابقت کے آثار قدیمہ کا عجائب گھر دیکھنے کو ملتا ہے مگر اس عجائب گھر کو دیکھنے کے لیے اہل نظر اور اہل فکر کی ضرورت ہوتی ہے جو مخصوص گروہی چشمے اتار کر دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
ہم نے روایتی اور توہمات و کرامات کی باتیں کرنی تھی سو کر لیں چودہ سو سالوں میں، مگر اب اس توہمات کے سلسلے کو جاری رکھنے کی چنداں ضرورت نہیں اس لیے بے منزل راستوں سے رابطہ منقطع ہو جائے تو ہی بہتر ہے ۔ اب ہمیں جانبداری اور اندھی تقلید کی دلدل سے نکل کر صحت مند ماحول کی جانب متوجہ ہونے کی ضرورت ہے جس میں فکر حسین کی پاسداری بلا تفریق کی جائے تاکہ حسینیت کی بہترین مثال پیش کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ کسی بھی معاشرے میں اگر کوئی بھی فرد جس کا تعلق کسی بھی گروہ یا طبقے سے ہو اگر انتہا پسندی کی بات کی جائے یا معاشرے میں انتشار پھیلانے کی کوشش کریں یا انسانیت کی منافی گفتگو کرنے کی ضرورت دکھائیں تو ایسے فرد، گروہ یا طبقے کو کسی صورت حسینی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ حسینیوں کا یہ شیوہ ہرگز نہیں کہ وہ انسانیت کو تار تار کرنے پر دماغ لگائے۔ درس کربلا اور فکر حسین یہی ہے کہ ہمیشہ گروہی طرز سے کنارہ کش ہو کر صرف اور صرف مظلوم کی حمایت کریں اور ظالم اگر اپنے گروہ، طبقے یا قوم سے تعلق رکھنے والا کیوں نہ ہو اس کے خلاف کھڑے ہونا ضروری ہے، ورنہ روایتی انداز ، تقلیدی قاعدے اور بے روح فکر کی حکومت جو برسوں سے قائم ہے جاری رہے گی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں