تنازعہ نرتھنگ:وزیر اعجاز

تنازعہ نرتھنگ : وزیر اعجاز

زمین کو دھرتی ماں کہا جاتا ہے ،اسی سے آپ زمین کی اہمیت کا اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں۔مگر ہمارے ہاں بدقسمتی سے لوگ صرف آباد ،سرسبزاور زرخیز زمین کو ہی دھرتی ماں جیسی اہمیت دیتے ہیں اور کچھ لوگ تو اس بچے کچے زمین کو بھی بیج کر ایک عجیب سی بےچینی میں مبتلا رہتے ہیں_اور ہمارے ہاں آج سے پندرہ بیس سال پہلے لوگ ویران گنجان علاقے کے ساتھ سوتیلی ماں جیسے رویہ رکھتے تھے ویران گنجان زمین کو کوئی اتنا اہمیت نہیں دیتے تھے،اسی لئے آج میں اور آپ اسکا خمیازہ بھگت رہے ہیں اس سوتیلی ماں جیسے رویہ رکھنے والی زمین پر آج کوئی اور قابض ہو رہے ہیں ہے جو کہ پورے گلگت بلتستان میں ہمیں نظر آرہے ہیں ,تاریخی تناظر میں بھی یہی دیکھنے میں آیا ہے جو قوم اپنی زمین کی حفاظت کرنا نہیں جانتی اس قوم کے ہاتھوں سے وہ زمین مٹھی سے ریت کی طرح نکل جاتی ہے۔
کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر ایک خاص گاؤں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی طرف سے ایک پوسٹ گردش کر رہی ہے ،اس پوسٹ میں اس گاؤں والوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کا ذکر ہورہا ہے،چلے ہم اس خاص گاؤں کا نام یہاں لیتے ہیں ( نر) پہلے ہم نر کی زمینی حقائق اور محل وقوع کے بارے میں جانتے ہیں ،نر سکردو سے تقریبا بیس سے پچیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے ،تھورگو پڑی کراس کرنے کے بعد نرتھنگ نامی وسیع و عریض غیر اباد گنجان علاقے کے دوسری جانب نر نامی گاؤں آباد ہے نر اور نرتھنگ کے بیج دریائے سندھ پڑتا ہے ،صدیوں سے اس گنجان وسیع وعریض علاقے کا نام نرتھنگ سے مشہور ہے نرتھنگ کا مطلب نر والوں کا چراگاہ یا نر والوں کا گنجان علاقہ کہہ سکتا ہے تھنگ بلتی زبان میں گنجاں ویران علاقے کو کہا جاتا ہے جہاں پانی موجود نہ ہو،ہریالی نہ ہو ۔خیر جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے یہی یاد ہے مجھےکہ سردیوں کے موسم میں گول والے اپنی مال مویشیاں چرانے کےلئے نرتھنگ لاتے تھے ،اس پر نر والے اپنی زمین ہونے کے باوجود کوئی اعتراض نہی کرتے تھے کیونکہ آج سے پچیس تیس سال پہلے تک شاید لوگ سادہ تھے ،بے وقوف تھے یا بے حس تھے ،تینوں ہوسکتے ہے ہا کوئی ایک، اس دوران نر کے سادہ لوح عوام نےگول والوں کو مال مویشیاں چرانے سے کبھی منع نہیں کیا کوئی ردعمل نہیں دکھایا یا ضروری نہیں سمجھا یا انکو ہوش نہیں تھا یہ الگ بحث ہے ۔اسی دوران ہی یہ معاملہ کئی بار دیکھنے میں آیا ہےکہ سردیوں کے موسم میں نر کے کچھ لوگ اپنی مال مویشیوں کو چرانے کےلئے نرتھنگ بھیجنے لگے تو گول کے عوام کی طرف سے منتخب کچھ لوگ نرتھنگ میں اپنی ڈیوٹی دیتے تھے اور نر کی طرف سے آنے والے کچھ مویشیوں کو واپس نر کی طرف بھجتے تھے اور کچھ کو اپنے ساتھ گول لے کر جاتے تھے۔ کیونکہ گول کے باشندے نرتھنگ کو اپنی چراگاہ سمجھتے تھے اس لئے شروع دن سے ہی نر تھنگ پر اپنی ملکیت کا دعوا کر رہے تھے اور اسی دوران نر سے جو لوگ نرتھنگ گھاس پھوس وغیرہ لینے جاتے ان پر گھیرا تنگ کرنے لگے کچھ لوگوں سے گاس پھوس چھینے لگے اور ساتھ ہی کئی لوگوں پر تشدد کرنے کا واقعہ بھی سامنے آیا نر والوں پر نرتھنگ کی زمین تنگ ہونے لگی۔ گول کے عوام کی طرف سے آہستہ آہستہ مختلف طور طریقوں سے نرتھنگ پر اپنی ملکیت کا دعوا بڑھنے لگےاور تسلط بھی جمانے لگے، اس وقت نر والوں کی طرف سے کوئی مزاحمت کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا نر والے شاید غفلت کی نیند سورہے تھے یا انکی کوئی لیڈر شب نہیں تھی کوئی سرکردہ نہیں تھا یا نر کے عوام میں ایسے باہمی ایشوز پر سب مل بیٹھ کر بات کرنے کا رواج نہیں تھا ،کیونکہ نر کے اندرونی پارٹی بازیاں اور منافقت نے نر والوں کو ایسے ایشوز پر کبھی یکجا ہونے نہیں دیا۔ بقول شاعر۔

یکجا دکھائی دوں گا تمہیں دور سے مگر
جب پاس آؤگے کئی حصوں میں پاؤگے

پانچ سالوں میں ایک بار بھی گاؤں کے غریبوں کا حال احوال پوچھنے نہ آنے والے عوامی نمائندوں کے پیچھے خود زندگی بھر دست و گریبان رہنے والے لوگوں کو سمجھانا شاید مشکل نہیں ناممکن سا لگتا ہے ۔اس الیکشن کے علاوہ بھی زندگی کے مسائل ہےآپکے گاؤں کے اور بھی ایشوز ہے پورے نر سے بھی رقبے میں بڑا نرتھنگ آپ لوگوں کی غفلت، جہالت اور بے حسی کی وجہ سے ہاتھوں سے نکلتا جارہا ہے چھوڑ ئے اب یہ جہالت اور پارٹی بازیاں اور سب ایک ہوکر اس اجتماعی ایشوز پر غوروفکر کرے ،اندرونی منافقت سے نکل کر سب کو ایک ہونے کی ضرورت ہے۔آپکی بے حسی اور عدم اتفاق کی وجہ سے ہی نوبت یہاں تک پہنچی تھی کہ جس کسی شخص کی مال مویشی گول والے اٹھا کر لے جاتے تھے وہ بےچارہ خود اکیلے گول جاکے وہاں کے سرکردہ سے انتہائی ادب و احترام کے ساتھ معزرت کر کے اپنی مویشی کو انکی قید سے چھڑا کر واپس لے آتے تھے اور دوبارہ کبھی اپنی مویشی کو نر تھنگ کی طرف نہ بھیجنے کی قسم کھا کر واپس نر کی طرف لوٹ جاتے تھے،اور دوبارہ کبھی نر تھنگ کی طرف بھیجنے کی ہمت نہی کرتے تھے،ہمت بھلا کیسے کرتے جس گاؤں کا کوئی وارث نہ ہو جس گاؤں میں ایسے اجتماعی ایشوز پر سوچنے والا کوئی نہ ہو ایسے اجتماعی ایشوز پر بات کرنے والا کوئی نہ ہو ممکن نہیں وہاں کوئی بندہ انفرادی طور پر یہ ہمت کر سکے ، اور ایسے معاملات میں دوبارہ دخل اندازی کر سکے بلکہ وہ شخص خود کو ایسے معاملات سے کوسوں دور ہی رکھنا پسند کرے گا کیونکہ وہ شخص اپنے پیچھے دیکھے گا تو سوائے محرومیوں کے ایک خلا کے اورکچھ نظر نہیں آئے گا ۔اس محرومی کے پیچھے بھی پوری ایک داستان ہے ، داستان تو لمبی ہے پر مختصر اتنا ہے وہاں کے لوگوں کی تعلیم سے دوری ،تعلیم سے دور ہونے کے نقصانات تو بے شمار ہیں جو سب سے بڑا نقصان ہے وہ جہالت ہے ،تعلیم سے دور ہونےسے جہالت بڑھتی ہے اور جہالت کے بڑھنے سے منافقت بڑھتی ہے اور منافقت ہر سماج کےلئے زہر کی مانند ہے ،اب اس بڑھتی ہوئی جہالت کو روکنے کا صرف ایک ہی حل ہے اپنی نسلوں کو زیور علم سے آراستہ کرنا اور ان میں فکری اورنظریاتی طور پر اپنی قوم سےمحبت اور باہمی تعلقات کو استوار کرنے اور ایسے بڑے ایشوز پر اپنے اندرونی کیچڑ اور منافقت کو بالائے طاق رکھ کر سب یک زبان یک دل ہوکر بات کرنے کی ہمت پیدا کرنا، یہ کام نوجوانوں کا ہے جو کہ امید ہے وہاں کے نوجوان علم کی راہ میں آگے بڑھ رہے ہونگے اور ایسے ایشوز پر سنجیدگی سے سوچینگے۔ اب رہی بات وہاں کے لوگوں کی میری مراد وہاں کےسرکردگان کی اس گاؤں کے سربراہوں کی جو کہ نر سے کراچی تک چپے چپے میں پھیلا ہوا ہے،جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے اس سماج کے لوگوں میں سوائےمنافقت، بغض ،حسد کینے کے اور تو کوئی کام نہیں دیکھا ،خدارا بس کردیجئے اب اکیسویں صدی کا نصف آن پہنچا ہے اب چھوڑدیجئے یہ سب نکلئے اندرونی منافقت کے کیچڑ سے اور پوری قوم کے بارے میں سوچئے ،آج دوسرے لوگوں کے سامنے آپکی یہ گری ہوئی حیثیت کیوں ہے؟؟سوچئے کبھی اس بارے میں بھی آج کوئی آپکو اطلاع دیے بغیر بند کمروں میں فیصلے کرنے کی جرات کیسے کر رہے ہیں۔ یہی وجوہات ہے آپس میں بٹے ہوئے ہونا اور اندرونی کیچڑ میں مبتلا ہونا گاؤں کا کوئی سنجیدہ سرکردے کا نہ ہونا ،اس گاؤں کا کوئی والی کا نہ ہونا شاید آپ لوگوں کو اپنی حیثیت کا پتہ چل گیا ہوگا باہر کیا حیثیت ہے آپ لوگوں کی ،اب بھی وقت ہے ہوش کے ناخون لے اور اندرونی کیچڑ اور منافقت سے نکل کر اس مسئلے پر سب ایک ہوجائے اور باشعور قوم ہونے کا ثبوت دے جو کہ نہیں ہے انتہائی افسوس کے ساتھ ۔۔!

گول اور گون کے عوام سے میری گزارش ہے جو نرتھنگ کو اپنی ملکیت سمجھ رہے ہیں اپنی چراگاہ سمجھ رہے ہیں۔ اور آئے روز نر کے سادہ لوح لوگوں کو تنگ کر رہے ہیں ایسے بدمعاشی اور ہٹ دھرمی سے قابض ہونے کا زمانہ اب نہیں رہا باشعور قومیں اپنے معاملات کو باہمی اتفاق سے حل کرنے کی کوشش کرتی ہیں ،اور اچھے انجام باہمی تعلقات اور مل بیٹھ کر فیصلہ کرنے سے ہی ہوتا ہے ۔ زمینی حقائق کے بنیاد پر دیکھا جائے تو نرتھنگ نر والوں کا ہے اور اس مشہور کہاوت سے پورے بلتستان کے بزرگ بڑے جانتے ہیں “نرتھنگ می شیس نا نر پی می جھا”اس کہاوت کے پیچھے ایک بڑی تاریخ ہے اس مشہور کہاوت کی تناظر میں دیکھا جائے تو یہی بات سمجھ آتی ہے پرانے وقتوں میں اگر کوئی مسافر دوران سفر نرتھنگ کی حدود میں انتقال کر جاتا تو اسکی ذمہ داری نر والوں کے اوپر آتے یا نر کے رہنے والے لوگوں کو اس کا خون بہا ادا کرنے پڑتے۔یہ ایک کہاوت ہے جس سے یہی سمجھ آتا ہے نر تھنگ قدیم وقتوں سے ہی نر والوں کی چراگاہ ہے نر والوں کی زمیں ہے۔خیر اب حالات یہاں تک پہنچ چکی ہے جو حقیقی اس زمیں کے وارث ہے انکو دیوار سے لگا کر گول اور گون والے آپس میں زمین بانٹ رہے ہیں ۔جو انکے درمیان زمین بانٹ رہے ہیں انتہائی بزرگ قابل احترام عزت مآب جناب آغا صاحب کی سربراہی میں انجام پایا ہے۔آغائے محترم صاحب سےیہی سوال ہے فیصلہ کرنے سے پہلے آپ نے ایک بار سوچا جو اس زمین کے حقیقی وارث ہے انکو بھی اس فیصلےمیں شامل کیا جائے، یا انکو بھی اطلاع دے لیکن افسوس اس بات کا ہے اطلاع دینا بھی ضروری نہیں سمجھا اور خاموشی سے بند کمرے میں فیصلہ سنا کر آپس میں زمین بانٹ لئے۔بند کمرے میں جو فیصلہ کیا ہے یہ خلاف قانون اور خلاف عقل والی بات ہے،اگر ایسے ہی بند کمرے میں فیصلے سناتے رہے تو حالات آپکے سامنے ہے گزشتہ دس پندرہ سالوں سے گلگت بلتستان میں ایسے سینکڑوں ایشوز سامنے آئے ہیں دو علاقے کے درمیان زمینی تنازعہ میں شدت اختیار کرتے اور جب بات لڑائی جگھڑوں تک پہنچ جاتی ہے تو انتظامیہ بیج میں آجاتی ہے اور خود قابض ہوجاتی ہے ،کیونکہ یہ انتظامیہ کے مفاد میں ہوتا ہوگا ، انتظامیہ قابض ہونے کے بعد دونوں فریقین اس سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ان سارے تنازعہ ایشوز میں سے مشہور تنازعہ مقپون داس کا معاملہ ہم سب کے سامنے ہے ،جلال آباد اور ہراموش کے درمیان کئی سال تک لڑائی جھگڑے چلتےرہیں اور بعد میں جو ہوا سب کے سامنے ہے ۔ گزشتہ دس سالوں میں ایسے سینکڑوں واقعات ہوئے ہیں ہم سب بخوبی جانتے ہین،لہذا ایسےایشوز کو مل بیٹھ کر حل کرنے میں ہی بہتری ہے تینوں گاؤں کےجو بھی سکردگان اور نمائندگان ہے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر اس ایشو کو حل کیا جائے اسی میں سب کی بھلائی ہے، ارباب اختیار سے یہ میری گزارش ہے جو فیصلہ ہوا ہے اس پر نظر ثانی کی جائے ،یہی علاقے کی امن و امان کے لئے بہتر ہوگا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں