آڈیو لیکس کا معاملہ

آڈیو لیکس کا معاملہ ۔
عمران خان کی برطرفی کے بعد بڑی تیزی کے ساتھ یہ لیکس کے معاملات جنم لے رہے ہیں ۔کبھی ان کے کسی گفتگو کو لیکس کیا جاتا ہے تو کبھی ہو بات کرتے ہوۓ نظر آتے ہیں ۔کہ میری حکومت کے خلاف سازیش ہورہی ہے ۔اور ایک دیاسی جماعت اس معاملے پر کھل کر سیات کر رہی ہے ۔اور فاٸدہ حاصل کر رہی ہے ۔میرا سوال یہ بنتا ہے کہ وزیر اعظم ہاوس اتنا محفوظ نھیں ہے کہ کوٸی بھی شخص وہاں جاکر جو بھی بات چیت کرتا ہے وہ فورأ سے ریلیز کر دی جاتی ہے اور اس معاملے پر میڈیا میں اتنی بحث ہوتی ہے کہ وارن کا سر پک جاتا ہے ۔اس سے معاملات خراب ہوتے ہیں ۔معاملات بنتے نظر نھیں آتے ۔اگر اوقع عمران خان صاحب نے یہ باتیں کیں ہیں تو اسی وقت منظر عام پر کویں نھیں لائی گئی ۔عالمی ادارے سے ان تمام معاملات کی آزادانہ تحقیقات ہونی چاہے ہم ایسے ہی نھیں کہ سکتے کہ یہ ساری باتیں مسلیم لیگ کی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے منظر عام پر لائی ہے وہ ساری سچ ہیں ۔اس جدید دور میں مکسینگ بھی تو کی جاسکتی ہے ۔ہماری ملک کا سب سے بڑا مسلہ بھی یہی ہے کہ اگر ایک شخص حکومت میں نہیں ہوتا تو اس کو اس انداز میں پیش کرتے ہیں جیسے وہ ملک کا دشمن ہوں ۔اور خود سب سے بہترین محب پاکستانی ۔خدارا اس گندی سیاست کو خیر باد کہ دینا ہوگا ۔ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہوگا ۔جمہوریت آصف علی زرداری کو افراد کی خریداری کرانے کا نام نھیں ہے ۔زرداری کو سمجھانا ہوگا کہ جناب جس جمہوریت کی آپ بات کر رہتے ہیں اس کا مطلب انصاف ہے ۔ایمان داری ہے ۔لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا ہے نہ کہ سازیشیں کر کے کسی کی حکومت گرانا ہے ۔اگر یہ آڈیو لیکس درست ہیں تو اس کا مطلب ہم یہی سمجھیں گے کہ یہاں تو کچھ بھی محفوظ نھیں ہے ۔جب لوگوں کی گفتگو محفوظ نھیں ہے ۔وزیر اعظم ہاوس محفوظ نھیں ہے تو ایک عوام کس طرح اس بات کی یقین دہانی کرے کہ اس کی جان ۔ناموس اور املاک محفوظ ہے ۔عدالت کو چاہیے کہ اس معاملے پر از خود نوٹس لیں اور اس کی جانچ پڑتال کریں ۔اس طرح کے معاملات سے نمٹنے کے لیے وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے ہاوس میں موبائل فون پر پابندی لگا دی ۔اس کے باوجود انکی اور مریم نواز کی گفتگو منظر عام پر آئی ۔سائبر سیکوریٹی کو مضبوط بنانا ہوگا ۔اس میدان میں کافی پیش رفت دیکھانی پڑے گی ۔اور تیزی سے بڑتی ہوئی ڈس انفارمشن کے آگے بندھ باندھنا ہوگا ۔ورنہ معاملات بہت آگے نکلیں گے اور ہمیں صرف پچھتاوا ہی ملے گا ۔توشہ خانہ کے قیمتی تحائیف اگر کسی نے بیچے ہیں تو ان معاملات کے لیے ایک مخصوص جگہ ہے وہاں تذکرہ کرنا چاہیۓ ۔نہ کہ آپ اس انداز میں اس میں ملاوٹ کرے کہ آپ خود بے داغ نکلیں ۔کسی کی پگڑی اچھالنے سے قبل اپنے معاملات پر بھی ذرا نظر دوہرایں ۔پھر بات بن جاۓ گی ۔اگر سیاست دان واقع اس ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا چاہتے ہیں تو خدارا ملک کا سوچیں ۔کسی نے کام نہیں کیا تو نہیں کیا ۔خود کرلیں ۔کام کرنے سے پہلے لمبی چوڑی داستان سناتے ہیں اور عوام پر بڑا احسان کرلیتے ہیں ۔عوام لے لیے کام کرنا حکمرانوں کی اولین ذمہ داری ہے ۔احسان والی بات نہیں ہے ۔سقوط ڈھاکہ کو ہوۓ ٥٥سال گزرے ۔مگر لگتا ہے کہ ہم اس قدر بے حس ہیں کہ اب تک سبق حاصل نھیں کیے ۔اب بھی اسی ٥٥سالہ گند کو صاف کرنے کے لیے ایک دوسرے کو ذمہ دار قرار دے رہے ہیں ۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں