غالب کی شاعری پر ایک نظر، حامد حسین شگری

غالب کی شاعری پر ایک نظر، حامد حسین شگری “
مرزا نوشہ، نجم الدولہ ،دبیر الملک ،بہادر نظام جنگ ، مرزا اسد اللہ خاں غالب 27 دسمبر 1797 کو آگرہ ہندوستان میں پیداہوٸے۔چونکہ میری تحریر کا مقصد ان کی حالات زندگی بیان کرنا نہیں بلکہ ان کی چند ایک شاعری کی خصوصیات کو زیر قلم لانا ہے اس لیے بلا تمہید ان کی شاعرانہ خصوصیات اشعار کے ساتھ پیش کرنے کی سعی کی گٸی ہے۔غالب ایک عظیم شاعر ہیں اور غالب کو اپنے شاعرانہ عظمت کا احساس خود بھی تھا انھوں نی خود کہا ہے کہ ،

”ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے ۔۔۔
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیان اور “

غالب کی شاعری کی خصوصیات میں سے ایک اہم خصوصیت جدت ادا اور ندرت بیان ہے ۔غالب اپنی شاعری میں جو مضامین پیش کرتے ہیں وہ اچھوتے اور نادر ہوتے ہیں۔چونکہ غالب شاہراہ عام پر چلنے کا قاٸل نہیں تھا اس لیے انھوں نے اپنے لیے الگ راستہ نکال لیا تھا۔وہ اپنی شاعری میں ایسے موضوعات باندھتے تھے جن کو باقی شعرا نے مس بھی نہیں کیا تھا ۔شعر دیکھیے ،

”محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا ۔۔
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے ۔۔۔

آہ کو چاہیے ایک عمر اثر ہونے تک ۔۔
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک ۔۔۔
غالب کی شاعری کی ایک اور وصف استدلالی انداز بیان ہے۔استدلال کے معنی ہے دلیل ، یعنی غالب اپنی شاعری میں جس بات کا اشارہ کرتا ہے اسے دلیل کے ذریعے ثابت بھی کرتا ہے یہ انداز بھی باقی شعرا سے غالب کو ممتاز بناتا ہے ۔اس حوالے سے اشعار یوں ہیں

””کوئی میرے دل سے پوچھیے تیرے تیر نیم کش کو ۔
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا ۔

نہ تھا کچھہ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا۔
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا ۔

معانی کی پہلو داری بھی غالب کی شاعری کا اہم وصف ہے۔اس کی دلیل یہ ہے کہ غالب کی شاعری میں ایسے اشعار بکثرت ملتے ہیں کہ جن کو پڑھتے ہوٸے پہلے ہمیں ایک مفہوم ذہن میں آتا ہے لیکن اس پر غور و فکر کرنے کے بعد دوسرے لطیف معنی ذہن میں آ جاتا ہے جیسے کہ ۔

””کوئی ویرانی سی ویرانی ہے ۔
دشت کو دیکھ کر گھر یا آیا ۔۔“

””موت کا ایک دن معین ہے ۔

نیند کیوں رات بھر نہیں آتی ۔

اسی طرح مرزا غالب نے زندگی کے حقائق اور سچایوں کو اپنی شاعری میں بہترین انداز میں پیش کیا ہے ۔۔ وہ کہتے ہیں کہ ۔۔

بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آسان ہونا ۔
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا ۔

بازیچہ اطفال ہے دنیا میرے آگے ۔
ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے ۔

غالب کی شاعری میں عشق کا تصور واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے ۔

عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالب ۔
کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے۔۔

عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا ۔
درد کی دوا پائی درد لا دوا پایا ۔

غالب کی شاعری میں زندگی کا تصور بھی ملتا ہے مثلا وہ کہتے ہیں کہ

”” قید حیات و بند غم دونوں اصل میں ایک ہیں ۔
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پاٸے کیوں ““

””غم ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگ علاج ۔
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک ۔

اس کے علاوہ غالب نے اپنی شاعری میں غم کے تصور کو بھی نہایت خوب صورتی سے پیش کیا ہے ۔۔

””رنج سے خوگر ہوا انسان تو مٹ جاتا ہے رنج ۔
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہوگٸیں ۔۔

”غم اگرچہ جاں گسل ہے یہ بچیں کہاں کہ دل ہے ۔
غم عشق گر نہ ہوتا غم روزگار ہوتا ۔

شوخی و ظرافت اور طنز بھی غالب کی شاعری کی اہم خصوصیات میں سے ایک ہے۔مولانا الطاف حسین حالی نے اپنی کتاب ”یادگار غالب“ میں غالب کو شوخی و ظرافت کے پیش نظر حیوان ظریف کہا ہے۔چونکہ غالب کی شاعری میں ظرافت کا مادہ کوڈ کوڈ کر بھرا ہوا ہے ۔۔ شعر دیکھیے

””ان پری زادوں سے لیں گے خلد میں ہم انتقام ۔
قدرت حق سے یہی حوریں اگر واں ہو گٸیں ۔

”کہاں میخانے کا دروازہ غالب اور کہاں واعظ ۔
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے ۔۔

جانتے ہیں خوب رویوں کواسد ۔
آپ کی صورت تو دیکھا چاہیے ۔۔

غالب کی شاعری میں رجاٸیت کا عنصر بھی موجود تھا ۔غالب اپنی زندگی سے نا امید نہیں تھے بلکہ ہمیشہ مثبت سوچ رکھتے تھے۔۔برے وقت میں بھی صبر و اسقلال سے کام لیتے تھے ۔ ایک ادیب نے غالب کے بارے میں یوں کہا ہے ”غالب غم کے لمحوں میں بھی قہقہے لگانے والا انسان ہے“جیساکہ شعر دیکھیے ۔۔

””نغمہ ہائے غم کو بھی اے دل غنیمت جانیے۔
بے صدا ہو جائے گا یہ ساز ہستی ایک دن ۔۔۔

ان آبلوں سے پاٶں کے گھبرا گیا تھا میں ۔۔
جی خوش ہوا ہے راہ کو پر خار دیکھ کر ۔۔

غالب کی شاعری میں الفاظ و تراکیب کا حسن بھی بہت نمایاں نظر آتا ہے ۔

”بوئے گل نالہ دل دود چراغ محفل ۔۔۔
جو تیری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا ۔۔۔

غالب نے پہلےپہل فارسی میں شاعری کی اس لیے ان کو اپنی فارسی زبان پر فخر تھا لیکن جب انھوں نے اردو میں شاعری کی تو ان کی شاعری میں فارسیت کا غلبہ رہا بعد میں اپنے دوستوں اور شاگردوں کے مشورے سے غالب نے اپنی شاعری میں فارسیت کم کردی ۔۔فارسیت کی مثال کچھ یوں ہے ۔

”” دام ہر موج میں ہے حلقہ صد کام نہنگ ۔۔
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک ۔۔۔

”بسکہ ہوں غالب اسیری میں بھی آتش زیرپا ۔۔۔
موٸے آتش دیدہ ہے حلقہ میری زنجیر کا ۔۔۔

اس کے علاوہ غالب کی شاعری میں پیکر تراشی ،تصویر کشی اور منظر کشی کی جھلک بھی خوب ملتی ہے ۔۔

””جہاں تیرا نقش قدم دیکھتے ہیں ۔۔
خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں ۔

غالب کی سب سے بڑی خوبی غیرت و خودداری ہے، غالب نے ہمیشہ خود داری کی بات کی ہے یہ خوبی ان کی شاعری میں بھی آ گٸی ہے ۔۔

””وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں ۔۔۔
سبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سر گراں کیوں ہو ۔۔

وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا ۔۔۔
تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگ آستاں کیوں ہو ۔۔

اس کے علاوہ رمزیت و ایماٸیت ،سوز گداز، فکر کی بلندی،نازک خیالی غالب کی چند دوسرے خصوصیات ہیں اس کے علاوہ بھی غالب کی شاعری میں زبان و ادب کے گراں قدر حوالے موجود ہیں تحریر کی طوالت کا ڈر نہ ہوتا تو ان کی شاعری کی چند اور پہلوٶں کو اجاگر کرنے کی سعی ضرور کرتا ۔۔یہ ایک ادنی سی کوشش ہے جو کہ مجھ جیسا طالب علم کو غالب شناسی کے لیے کچھ کارآمد ثابت ہو گی ۔۔انیسویں صدی کا یہ نابغہ روزگار شاعر 15 فروری 1869 کو دہلی میں انتقال ہوا ۔۔۔۔۔

”” آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں۔
غالبؔ صریرِ خامہ نوائے سروش ہے ۔

urdu poetry, Ghalib’s poetry,

100% LikesVS
0% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں