شفاف ٹرائل ! پروفیسر قیصر عباس
شفاف ٹرائل ! پروفیسر قیصر عباس
آخر کار سابق وزیراعظم پاکستان اور بانی چیئرمین پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو کو 41سال بعد” نصف انصاف “مل گیا کیونکہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک بنچ نے ایک صدارتی ریفرنس کی سماعت کے سلسلے میں اپنے متفقہ فیصلے میں اس بات کو تسلیم کر لیا ہے کہ تب کی سپریم کورٹ جس کی سربراہی چیف جسٹس انوار الحق کر رہے تھے ٫نے ذوالفقار علی بھٹو کو شفاف ٹرائل کا حق نہیں دیا۔صدارتی ریفرنس کی سماعت 9 رکنی بینچ نے کی اس بنچ ٫ جس کی سربراہی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کر رہے تھے جب کہ دیگر ججز میں جسٹس طارق مسعود ٫جسٹس مسرت ہلالی ٫جسٹس محمد علی مظہر ٫جسٹس جمال مندوخیل ٫ جسٹس حسن اظہر رضوی ٫جسٹس منصور علی شاہ ٫جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس امین الدین خان شامل تھے۔یاد رہے یہ صدارتی ریفرنس سابق صدر آصف علی زرداری کے دور حکومت میں سپریم کورٹ میں دائر ہوا تھا لیکن اس ریفرنس پہ اس دور حکومت میں سماعت ہوئی ہے۔اس نو رکنی لارجر بنچ نے متفقہ رائے دی ہے کہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو شفاف ٹرائل کا حق نہیں دیا۔جہاں فاضل بنچ نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ سابق وزیراعظم کو شفاف ٹرائل کا حق نہیں دیا وہی اس بنچ نے اس بات کو بھی تسلیم کیا ہے کہ “فیصلہ تبدیل کرنے کا قانونی طریقہ کار موجود نہیں۔”فاضل بنچ نے اس بات کو بھی تسلیم کیا کہ “ماضی کی غلطیوں کو درست کئے بغیر آگے نہیں چل سکتے٫عدلیہ میں خود احتسابی ہونی چاہئے۔”فاضل بنچ نے اس بات کو تسلیم کیا کہ لاہور ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں کیس آئین میں دئے گئے بنیادی حقوق اور شفاف ٹرائل کے مطابق نہیں چلایا گیا٫ذوالفقار علی بھٹو کو دی گئی سزا کے خلاف نظر ثانی اپیل بھی خارج ہوچکی ٫آئین پاکستان اور قانون میں ایسا کوئی طریقہ کار نہیں جس کے تحت اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے جو حتمی ہو چکا ہے۔”اس فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ “ججز قانون کے مطابق ہر شخص کے ساتھ فیصلہ کرنے کے پابند ہیں٫ماضی کی غلطیوں کو درست کرنے کے لئے کوشاں ہیں٫آئین کے مطابق اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا آئینی ذمہ داری سمجھتے ہیں کہ بطور جج ہم بلا خوف وخطر ٫بغیر کسی رغبت و لگاؤ ٫بدنیتی سے بالاتر ہو کر قانون کے مطابق بلا تفریق فیصلے کریں۔”چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں لارجر بنچ نے 4مارچ کو اس صدارتی ریفرنس پر رائے محفوظ کی تھی اس کیس میں عدالت نے قانونی معاونت کے لئے مشہور قانون دانوں کو بھی قانونی معاونین مقرر کیا تھا ان معاونین میں بیرسٹر اعتزاز احسن ٫سابق جج منظور احمد ملک ٫مخدوم علی خان ٫صلاح الدین ایڈووکیٹ اور سابق اٹارنی جنرل خالد جاوید تھے جبکہ رضا ربانی اور فاروق ایچ نائیک نے بھی اس صدارتی ریفرنس میں اپنے دلائل دیئے ۔یاد رہے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو نواب احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد قصوری کے قتل کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی تھی ۔تاریخ میں یہ پہلا مقدمہ ہے جس کی ابتدا ہی ہائی کورٹ سے ہوئی عموماً قتل کے مقدمہ کی کارروائی کا آغاز ڈسٹرکٹ کورٹس سے ہوتا ہے جب کہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جاتی ہے ۔مگر ستم ظریفی دیکھیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قتل کے الزام کی عدالتی کارروائی کی ابتدا ہی لاہور ہائی کورٹ سے شروع ہوئی اور پھر اس چیف جسٹس (مولوی مشتاق) نے اس مقدمہ میں سزائے موت سنائی جس کی پروموشن کی فائل بطور صدر بھٹو صاحب نے ریجکٹ کی تھی مطلب بھٹو صاحب کا کیس ہی اس جج نے سنا جس کے دل میں پہلے ہی بھٹو صاحب کے خلاف نفرت اور تعصب پایا جاتا تھا۔لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تو اس بنچ کے سربراہ جسٹس انوار الحق تھے جنہیں جنرل ضیاء الحق نے اپنے ساتھ ملا لیا مگر جب انوار الحق کے ذریعہ بھٹوصاحب کو سزا دلوا دی گئی تو اسی انوار الحق کو پی سی او کے تحت حلف اٹھانے کے لئے بلایا ہی نہیں گیا تھا جب کہ باقی ججز سے حلف اٹھوا کر انوار الحق کو گھر بھیج دیا گیا۔ اس بات کا اقرار بعد میں اس بنچ کے ایک رکن اور سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس نسیم حسن شاہ نے بھی کیا کہ” بھٹو صاحب کو سزا اس وقت کے ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کے دباؤ میں آ کر دی گئی تھی۔”چلیں ! ذوالفقار علی بھٹو چونکہ ایک قدآور سیاسی شخصیت تھے لیکن انہیں بھی پاکستان کے نظام عدل سے 41 سال بعد انصاف ملا وہ بھی دنیا سے جانے کے بعد لیکن پھر بھی مکمل انصاف نہ مل سکا بلکہ ادھورا انصاف ملا۔آپ خود اندازہ لگائیں کہ ایک عام آدمی کے ساتھ یہ نظام عدل کیا سلوک کرتا ہو گا؟ کتنے بے گناہ لوگ اس نظام عدل کی بھینٹ چڑھ گئےہونگے؟کتنے لوگ دیوانی مقدمات لڑتے ہوئے اور اپنا جائیداد میں جائز حق حاصل کرنے کی سعی کرتے ہوئے قبروں میں جا سوئے ہونگے؟ کتنے ایسے حقدار ہونگے جن کے پلاٹوں پر قبضے کر لئے گئے اور مالکان عدالتوں کے چکر لگاتے ہوئے اس دار فانی سے کوچ کر گئےہونگے؟اب معزز عدالت سے گزارش ہے کہ پاکستان کا ہر شخص بھٹو تو نہیں ہے جسے 41 سال بعد ہی سہی ادھورا ہی سہی انصاف تو ملا۔عدالت سے دست بدستہ گزارش ہے کہ دنیا سے جانے والوں کے ساتھ ساتھ زندہ لوگوں کو بھی “شفاف ٹرائل” کا حق دیں اور انصاف فراہم کریں تاکہ پاکستان میں “عدل انصاف” کا بول بالا ہو نہیں تو معزز عدالت پر پنجابی کی یہ کہاوت صادق آئے گی “جوندیاں نو ڈانگاں ٫ تے مویا نوں بانگاں۔”
پروفیسر قیصر عباس!