پرانا پاکستانی نظام پردیس میں پاکستانی ایمبیسی کے ذریعے بھی قائم ہے ۔
پرانا پاکستانی نظام پردیس میں پاکستانی ایمبیسی کے ذریعے بھی قائم ہے ۔
پاکستانی دنیا کے ہر ممالک میں برسر روزگار مقیم ہیں ۔یا کاروباری سلسلے میں رہائش پذیر ہیں ۔
کچھ دن قبل یو اے ای میں پاکستانی ایمبیسی جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ میرا پہلا ایمبیسی کا دیدار تھا۔ پہنچتے ہی گیت سے اندازہ ہوا کہ واقع ہمارے قوم دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ ممالک میں رہیں ۔ کسی صورت تبدیل نہیں ہونگے۔ گیٹ سے کسی نے پوچھا ۔ ہاں بھائی، کدھر ، میں نے اس کا شکل دیکھا تو پاکستان کی یاد ایک دم تازہ ہو گیا۔ وہ باہر بیٹھا ائیجنڈ تھا۔ اس کو نظر انداز کر کے اندر گیا تو مجھے یقین محکم ہو گیا۔ کہ پاکستانی ایمبیسی ہی ہے اور کچھ بھی تبدیل نہیں ۔ جیسے پاکستان کے کسی بھی سرکاری ادارے میں بطور سائل چکر لگا کر جو عزت افزائی ہوتی ہے ، بس پردیس میںبھی وہی سلوک اور وہی انداز افسر تھا .
گیٹ سے ہی دو عملہ لائن ٹھیک کرتے ہوئے پوچھا۔ “بھائی کیا کرنا ہے” میں نے بتایا ۔ پاسپورٹ رینوو ل کرنا ہے۔ وہ والا لائن میں جاو۔ جو سب سے لمبا تھا۔ خیر پاسپورٹ تو رینو ول تو کرنا تھا۔ لائن میں لگ گیا۔ خدا خدا کر کے ڈاکومنٹس چیک کرنے والے عملے کے پاس پہنچا تو اس عملے نے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ چیک کرنے کے ایک ٹوکن تھما دیا۔ سب سے افسوس کی بات ہے کہ ڈاکومنٹس چیک کرنے والے لائن میں خواتین اور مردوں کے لیے ایک ہی لائن تھا۔ خواتین کی تعداد کم تھی لیکن ایک الگ کاونٹر بنائے یا الگ لائن بنانے کا کو ئی طریقہ کار موجود نہیں تھا۔
خیر ٹوکن ملا تو میرا ٹوکن نمبر اور جس کو سروس دے رہے تھے۔ اس بیج دو سو لوگوں کا گیپ تھا۔ مطلب میرا کم سے کم تین گھنٹے اور لگ جانا تھا ،
یو اے ای میں پاکستانیوں کے تعداد تقریباً 25 لاکھ سے زائد ہے۔ اور دبئی ایمبیسی میں پاسپورٹ رینوول کیلئے صرف 2 عملہ کام کر رہے تھے۔ اور وہ بھی وقفے وقفے سے اٹھ کر چلے جاتے تھے۔ کم سے کم دس سے پندرہ منٹ لگا کر واپس آجاتے تھے ۔
ایک اندازے کے مطابق صبح دس بجے تک ساڑھے پانچ سو سے زائد لوگوں کیلئے پاکستانی ایمبیسی میں بیٹھنے کے لئے نہ ہی مناسب جگہ ہے اور نہ ہی کوئی سہولیات ، بس اتنے جگہ میسر آتا ہے کہ بندہ تھوڑا تھوڑا کر کے آگے بڑھے اور ٹوکن نمبر چیک کرے۔
کیا پاکستانی ہونا جرم ہے۔ اسی پاکستانیوں کے بھیجے ہوئے پسیوں سے چلنے والے ملک اپنے اورسیزز پاکستانیوں کیلئے کم سے کم بیٹھنے کیلئے مناسب انتظامات نہیں کر سکتے ہیں ۔
دبئی میں سب سے زیادہ بسنے والے ممالک میں سے انڈیا سر فہرست ہے۔ لیکن انڈیا نے اپنے تارکین وطن کیلئے ہر ایرے میں پاسپورٹ اور شناختی کارڈ رینوول کیلئے سنٹر قائم کئے گئے ہیں اور ایک انڈین صرف ایک گھنٹے میں اپنا پاسپورٹ اور دیگر معاملات کر کے واپس کام پر پہنچ جاتے ہے ۔ لیکن ہمارے ملک پاکستان کو دیار غیر میں بھی اپنے پاکستانیوں کو سہولیات دینے سے قاصر نظر آتے ہیں ۔
دبئی میں موجود پاکستان کے حالیہ ایمبیسی میں صرف( 100 )سو لوگوں کو سروسز مشکل سے دے سکے گا۔ لیکن جگہے کمی عملے کی قلت اورسزز پاکستانیوں کیلئے ذہنی عذاب بنا دیا گیا ہے۔ اس دور جدید میں ہمارے پاکستانی ایمبیسی میں لائن میں لگنا پڑتا ہے۔ اور بدتمیز عملے کے چپتے سوالوں کے جوابات دینا۔ پردیس سے زیادہ عذاب ہے
Urdu news Pakistan, Passport renewal in UAE