گلگت بلتستان اسمبلی میں متنازع لینڈ ریفارمز بل پیش، اپوزیشن کا بائیکاٹ ، عوام میں سخت تشویش ، بل کو فوری طور پر واپس لیا جائے عوام کا دو ٹوک موقف
رپورٹ، 5 سی این نیوز
گلگت بلتستان اسمبلی میں متنازع لینڈ ریفارمز بل پیش، اپوزیشن کا بائیکاٹ ، وزیر اعلیٰ کا انکشاف“بل اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی کے ساتھ تیار کیا،عوام میں سخت تشویش
گلگت بلتستان اسمبلی کے آج کے اجلاس میں ایک نہایت متنازع لینڈ ریفارمز بل 2024 پیش کیا گیا، جسے عوامی، سیاسی، اور قانونی حلقوں کی جانب سے سخت ردعمل کا سامنا ہے۔ اس بل کے تحت خطے کی قدرتی وسائل، چراگاہیں، عوامی مقامات اور دیگر اہم زمینوں کو “ناقابل تقسیم” (Impartible Land) قرار دے کر ریاستی کنٹرول میں لانے کی تجویز دی گئی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے اس بل کو خطے کے وسائل پر ریاستی قبضہ قرار دیتے ہوئے اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا۔
بل کی نمایاں شقیں:
پیش کیے گئے بل کے مطابق، “ناقابل تقسیم زمین” میں درج ذیل شامل ہوں گی:
1. قدرتی وسائل: دریا، چشمے، نالے، جھیلیں، گلیشیئرز، جنگلات، تالاب، اور عوامی کنویں؛
2. بلند و بالا غیر آباد چراگاہیں: وہ پہاڑی علاقے جو رہائش کے قابل نہیں؛
3. عوامی و مذہبی مقامات: قبرستان، عبادت گاہیں، سڑکیں، گزرگاہیں، آثار قدیمہ، کھیل کے میدان؛
4. اجتماعی مفاد کی زمینیں: جو تاحال تقسیم نہیں ہوئیں لیکن عوامی فائدے کے لیے مختص کی جائیں؛
5. تمام سرکاری زمینیں؛
6. اور وہ زمینیں جنہیں لینڈ ریفارمز کمیٹی ناقابل تقسیم قرار دے۔
یہ تمام زمینیں ضلع لینڈ اپورشنمنٹ بورڈ کی نگرانی میں آئیں گی، جس کی سربراہی ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) کرے گا — جو کہ وفاقی حکومت کا بیوروکریٹ ہے، اور جسے عوام کی طرف سے کوئی منتخب حیثیت حاصل نہیں۔
وزیر اعلیٰ کا انکشاف: “بل اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی کے ساتھ تیار کیا”
اسمبلی اجلاس کے بعد وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حاجی گلبر خان نے میڈیا سے گفتگو میں واضح طور پر اعتراف کیا کہ یہ بل اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی کی مشاورت سے تیار کیا گیا ہے۔ ان کے اس بیان نے اس تاثر کو مزید تقویت دی ہے کہ بل کی تیاری اور پیشکش میں عوام، مقامی قیادت، اور روایتی نظام کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا۔
اپوزیشن اور عوامی حلقوں کا شدید ردعمل:
• اپوزیشن ارکان نے بل کو “گلگت بلتستان کے وسائل پر ریاستی قبضہ” قرار دیا اور ایوان سے واک آؤٹ کر کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا؛
• مختلف جماعتوں اور سول سوسائٹی نے حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ غیر آئینی طریقے سے عوام کی زمینیں چھیننے کی کوشش کر رہی ہے؛
• عوامی رائے کے مطابق، گلگت بلتستان ایک متنازع خطہ ہے جس کی آئینی حیثیت اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت ابھی طے شدہ نہیں؛
• اس خطے میں صدیوں سے کسٹمری لائز (روایتی زمین داری قوانین) نافذ ہیں، جنہیں اس بل کے ذریعے کالعدم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
سیاسی پس منظر: گرفتاریاں، دباؤ، اور خاموش اسمبلی
یہ بل ایسے وقت میں پیش کیا گیا ہے جب گلگت بلتستان کے حق پرست سیاسی رہنماؤں کو پہلے ہی جعلی مقدمات میں گرفتار کیا جا چکا ہے۔ ان گرفتاریوں کا مقصد ناقدین کے مطابق عوامی قیادت کو کمزور کرنا اور آواز کو دبانا ہے تاکہ ایسے قوانین بغیر مزاحمت کے نافذ کیے جا سکیں۔ عوامی حلقے اسے “پہلے رہنما گرفتار، پھر زمین پر قبضہ” کی حکمت عملی قرار دے رہے ہیں۔⸻
قانون نہیں، ریاستی قبضہ! — عوامی موقف
مقامی افراد، سول سوسائٹی، نوجوان کارکنان، اور علاقائی عمائدین کا کہنا ہے کہ یہ بل درحقیقت گلگت بلتستان کی زمینوں پر ریاستی کنٹرول قائم کرنے کی کوشش ہے؛ ایک جعلی، غیر نمائندہ اسمبلی کے ذریعے ایسے قوانین منظور کرنا عوامی مینڈیٹ کی توہین ہے؛
• ڈی سی کی قیادت میں لینڈ بورڈ بنانا مقامی خودمختاری پر ضرب ہے؛ گلگت بلتستان کے لوگ اپنی زمینوں کے اصل وارث ہیں، اور کسی بیوروکریٹ کو اس پر اختیار نہیں دیا جا سکتا۔
عوامی مطالبات:
1. بل کو فوری طور پر واپس لیا جائے؛
2. زمینوں سے متعلق قانون سازی میں مقامی روایات (کسٹمری لائز) کو تسلیم کیا جائے؛
3. تمام فیصلے منتخب نمائندوں، عمائدین اور عوامی مشاورت سے کیے جائیں؛
4. گرفتار سیاسی رہنماؤں کو رہا کیا جائے اور ان کے خلاف سیاسی انتقام پر مبنی مقدمات ختم کیے جائیں۔
گلگت بلتستان کے عوام اس بل کو قانونی نہیں بلکہ قبضہ کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔ اگر یہ بل زبردستی اسمبلی سے منظور کرایا گیا تو خطے میں نہ صرف سیاسی بے چینی بڑھے گی بلکہ عوامی مزاحمت کی نئی لہر جنم لے سکتی ہے۔