پارچنار کے تاریخی پس منظر اور موجودہ حالات . ریاض احمد شفقت

پارچنار کے تاریخی پس منظر اور موجودہ حالات . ریاض احمد شفقت
پار چنار پاکستان کے صوبہ (کے پی کے) کے ضلع کرم ایجنسی کا مرکزی شہر ہے جو کہ اسلام آباد سے 580 کلومیٹر اور پشاور سے 258 کلومیٹر طے کر کے کوہ سفید کی دامن میں واقع ہے افغانستان کی سرحد دریائے کرم پر واقع ہے دریائے اکرم بالائی اور زیری دو حصوں میں تقسیم ہیں پارچنار اس کے بالائی خطے پر واقع ہے. درحقیقت پارچنار کے تین حصوں میں افغانستان اور مشرق میں پاکستانی سر زمین ہیں۔ شہر کا نام چنار درخت کی وجہ سے رکھا ہے لوگ اسی درخت کے نیچے بیٹھ کر معاشی، معاشرتی مسائل کو بحث کر کے ان کا حل تلاش کرتے تھے۔ پار چمکنی نام کے قبائل کے افراد اسی درخت کے نیچے بیٹھ کر مختلف مسائل کو حل کرتے تھے اسی مناسبت سے اس شہر کا نام پار چنار رکھا گیا اور ایک روایت کے مطابق چنار درخت کی کثرت کی وجہ سے اس شہر کا نام پارچنار رکھا گیا۔ شہر کے مرکز میں اکثریت توری اور بنگش قبائل کی ہے جو کہ کئی صدی سے یہاں آباد ہیں توری اور بنگش نسل پٹھان ہیں اور ان کی مادری زبان پشتو ہیں ۔وادی کرم میں توری اور بنگش قبائل 500 سے زیادہ عرصے سے آباد ہیں اور اس کا ذکر پہلی دفعہ مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے اپنے زمانہ حیات بابر نامے میں کیا ہے۔
سن 1890 میں افغانستان کی حکومت کی ظلم و ستم سے تنگ آکر توری قبیلے نے طویل جدوجہد کے بعد انگریزوں کے ساتھ مل کر کرم ایجنسی کو ہندوستان میں شامل کیا گیا تھا پھر انگریزوں نے توری قبائل کی حفاظت کے لیے 1893 میں توری ملیشیا کے نام سے قبائلی ملیشیا بنایا گیا۔
جو بعد میں کرم ملیشیا بنایا گیا اور 1948 میں قائد اعظم کے اصرار پر دیگر ایجنسیوں کی طرح کرم ایجنسی بھی پاکستان کے ساتھ شامل ہو گئے۔ کرم ایجنسی میں فرقہ وارانہ واقعات ایک لمبی تاریخ ہے جو مقامی لوگوں کے مطابق 70 برس کے عرصے پر محیط ہے۔ایجنسی بھر میں 2007 اور 2008 میں سنگین فرقہ وارانہ فسادات شروع ہوا تھا جو وقفے وقفے سے تقریبا چار سال تک جاری رہا تھا زیادہ تر واقعات کا مرکز پار چنار شہر رہا ہے جہاں توری اور بنگل بنگش قبائل آباد ہیں ۔ان میں زیادہ تر اہل تشیع کے ہیں حالات خراب ہونے کی وجہ سے پاکستان سے پارچنار جانے والے راستے بند رہا اور افغانستان کے راستے سے جاتے تھے۔
ان کے مقامی لوگوں کے مطابق جو کہ معاشرے کی حالات اور نزاکت کے حوالے سے کنٹرول کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ فسادات کی اصلی وجہ زمینی تنازیات سے شروع ہوا اور آہستہ آہستہ قبائلی دشمن پر اتر آیا اور بعد میں فرقہ وارنہ فسادات میں تبدیل ہو گیا کیونکہ یہ کرم میں زیادہ تر لینڈ ریکارڈ موجود نہیں ہے ریکارڈ نہ ہونے کی وجہ سے زمین پر ملکیت کا دعوی کرتے ہیں اور اپس میں دشمنی شروع ہو جاتے ہیں اور اخر میں اس کو فرقہ وارانہ رنگ دیا جاتا ہے پاکستان بننے سے لے کر اب تک عسکری قیادت پارچنار میں امن و امان کو قائم کرنے میں ناکام رہا ہے ان حالات کو دیکھتے ہوئے انٹرنیشنل لوبیز جو کہ ہمیشہ پاکستان کے خلاف بولتا ہے اور پاکستان کو کمزور کرنے کی سازشیں کرتا ہے ان کے لیے یہ ایک opportunity ہے یہ وہاں پر فرقہ وارانہ کو پروان چڑھائیں اور پاکستان کو معاشی, سیاسی اور امن کے لحاظ سے کمزور کر دیں۔
یاد رکھنا وقت اپنے مقرر وقت پر سب کچھ بتائیں گے کہ کون اس جرم میں ملوث ہیں اور کون پیچھے سے تعاون کر رہا ہے پھول جیسے بچوں کا کیا قصور تھا جو ابھی تک اپنے ماں باپ کے علاوہ کسی کو نہیں جانتا تھا مگر کتے سے بدتر انسانی شکل میں موجود بے رحم، بے ضمیر لوگوں نے عورتوں ،مردوں اور بچوں پر کوئی کسر نہ چھوڑا۔مگر عجیب اتفاق یہ ہے کہ پاک فوج کے جوانوں کے ہوتے ہوئے بھی ان کے اوپر فیئرنگ کرنا یہ پاکستان کے عام شہریوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ لہذا وقت کی ضرورت ہیں ان نام نہار دہشت گرد گروہ کو لگام دو ورنہ ایسا نہ ہو کہ پاکستان میں موجود حضرت علی علیہ السلام کے منانے والے پار چنار میں جانے پر مجبور ہو جائیں اور بھر ہر سڑکوں پر ،گلوں میں اور بازاروں میں علی علیہ السلام کے منانے والے نکلا کر دہشت گرد گروہ کو شکست دے گئے۔ لہذا حکومت اور عسکری قیادت پارچنار کے حوالے سے متفقہ طور پر ایک منصوبہ بنائیں اور اس میں پارچنار کے علماء کو بھی شامل کر کے اس مسئلے کو فوری حل کیا جائے اور فوری آپریشن کا اغاز کیا جائے ۔مالی امداد کے لیے اگر ضرورت ہے تو علی کے چاہنے والے میدان میں حاضر ہیں۔
Urdu news, Historical background and current situation of Par Chinar

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں