متحدہ علماء فورم گلگت بلتستان پاکستان کے زیرِ اہتمام منعقدہ احتجاجی اور تحلیلی نشت خالصہ سرکار کی قانونی اور شرعی حیثیت اور خالصہ سرکار کا تاریخی پس منظر تفصلی جائزہ

urdu news, Gilgit-Baltistan Pakistan Legal and Shariah status

متحدہ علماء فورم گلگت بلتستان پاکستان کے زیرِ اہتمام منعقدہ احتجاجی اور تحلیلی نشت خالصہ سرکار کی قانونی اور شرعی حیثیت اور خالصہ سرکار کا تاریخی پس منظر تفصلی جائزہ.
رپورٹ، 5 سی این نیوز
متحدہ علماء فورم گلگت بلتستان پاکستان کے زیرِ اہتمام منعقدہ احتجاجی اور تحلیلی نشت خالصہ سرکار کی قانونی اور شرعی حیثیت اور خالصہ سرکار کا تاریخی پس منظر تفصلی جائزہ، متحدہ علماء فورم گلگت بلتستان پاکستان کے زیرِ اہتمام منعقدہ احتجاجی اور تحلیلی نشت خالصہ سرکار کی قانونی اور شرعی حیثیت سے حجت الاسلام سید محمد سعید موسوی نے خالصہ سرکار کی قانونی حیثیت پر تفصیلی گفتگو فرمائی جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے

قالت فاطمة الزهرا ( سلام الله عليها) :ثُمَّ رَنَت بِطَرْفِهَا نَحْوَ اَلْأَنْصَارِ فَقَالَتْ: يَا مَعْشَرَ الفتنة وَ أَعْضَادَ اَلْمِلَّةِ وَ حَضَنَةَ اَلْإِسْلاَمِ مَا هَذِهِ اَلْغَمِيزَةُ فِي حَقِّي وَ اَلسِّنَةُ عَنْ ظُلاَمَتِي؟ أَ مَا كَانَ رَسُولُ اَللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ أَبِي يَقُولُ اَلْمَرْءُ يُحْفَظُ فِي وُلْدِهِ سَرْعَانَ مَا أَحْدَثْتُمْ وَ عَجْلاَنَ ذَا إِهَالَةٍ

الفاظ کی شناخت
سب سے پہلے اس عنوان کے الفاظ سے آگاہی ضروری ہے، مزکورہ عنوان، دو الفاظ پر مشتمل ہے : خالصہ اور سر کار۔
گلگت بلتستان ، خاص کر کے بلتستان کے عوام یہ سمجھتے ہیں کہ خالصہ کوئی بلتی لفظ ہے جو خالی اور غیر مقبوضہ و غیر متصرفہ اراضی کے معنی میں لیا جاتا ہے ، یہ صرف ایک غلط فہمی ہے بلکہ الفاظ کا کھیل ہے جس کے ذریعہ سے عوام کو جہالت میں رکھا گیا ہے

خالصہ سرکار کی حقیقت

سرکاری کاغذات میں اس لفظ کے استعمال کی حقیقت کچھ یوں ہے کہ پاکستان بننے کے بعد یہاں کی زمینوں کی دوبارہ سے بندوبست اراضی اور اشتمال اراضی کا عمل انجام ہی نہیں پایا اسلئے کاغذات محکمہ مال میں نام مالک کے خانے میں وہی خالصہ حکومت/سرکار لکھتے چلے آرہے ہیں۔ ورنہ اس خانے میں جی بی سرکار لکھنا چاہئیے تھا۔
خالصہ سرکار کسی زمین، جگہ،یا قطعہ اراضی کا نام نہیں ہے بلکہ جموں وکشمیر میں27 اکتوبر 1947 تک موجود ڈوگرہ سکھ حکومت کا نام تھا جسکا وجود اب کہیں پر بھی نہیں۔ لہذا گلگت بلتستان میں خود اس لفظ کے استعمال کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا بلکہ حقیقت میں دیکھا جائے تو خود اس لفظ کے استعمال پر پابندی لگنی چاہئے کہ کیوں ڈوگرہ راج کی حکومت کا نام ابھی تک باقی رکھا گیا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ حکمران طبقے اس لفظ سے غلط فائدہ اٹھا کر زمینوں پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں ۔

خالصہ سرکار کا تاریخی پس منظر:
تاریخی لحاظ سے گلگت بلتستان میں 1846 میں ڈوگرہ خالصہ سرکار کے قبضے سے قبل تمام تر اراضی یہاں کے عوام کی ملکیت اور قبضے میں تھی۔ جس نے جہاں مناسب سمجھا بنجر اراضی کو آباد کیا اور اس سے مستفید ہوے۔ کوئی دستاویز یا نقشہ اراضیات اور ملکیتی دستاویز وجود نہیں رکھتا تھا ۔ جس علاقے میں جس راجہ (چو، میر، مہتر، خوشوقت) کی حکومت ہوتی تھی وہ بلا تفریق اپنی رعایا سے گندم، لکڑی،گھی، میوہ جات خشک و تر ، گوشت کے لئے جانور وغیرہ حسب ضرورت بطور خراج یا ٹیکس وصول کرتے تھے۔ ہمسایہ ریاستوں سے جنگ کی صورت میں عام لام بندی کرکے رعایا سے فوج جمع کرتے۔ تھے جیساکہ تاریخ جموں میں درج ہے۔ 1846 میں راجہ احمد شاہ اسکردو کے بڑے بیٹے محمد شاہ نے اپنے باپ سے حکومت چھیننے کے لئے ڈوگرہ دربار جموں کشمیر سے مدد لی اور اپنے ماموں راجگان کھرمنگ کی مدد سے اسکردو پر حملہ کرایا اور اپنے باپ سے تخت چھین کر انہیں ڈوگرہ فوج کے حوالے کرکے اسیر بنوا لیا۔ نتیجے میں قابض ڈوگرہ حکومت نے غدار بیٹے محمد شاہ کو اسکردو کا حکمران بنایا اور شگر کے حکمران حیدر خان حیدر کو بیٹے سمیت گرفتار کروانے والے امام قلی خان آف شگر کو شگر کی حکومت سونپ دی۔ یہ ڈوگرہ حکومت بلتستان بھر کے راجگان سے سالانہ ٹیکس اور باج وخراج وصول کرتے تھے اوریہ راجگان اپنے علاقے کے لوگوں سے ظالمانہ ٹیکس لیتے۔ پھر 1920 میں ڈوگرہ خالصہ سرکار ( حکومت) نے گلگت بلتستان کی تمام زمینوں کا دستاویزی ریکارڈ مرتب کرنا شروع کیا تاکہ حکومتی اخراجات کے حصول کا منظم اور مربوط نظام اور ٹیکس کی وصولیاں ممکن بنا سکیں۔ اس کو بندوبست اراضی کا نام دیا گیا۔ یہاں پر ڈوگروں نے تمام زمینوں کو تین قسموں یا درجات میں تقسیم کیا
1۔ اپنے وفادار راجگان کو حسب مراتب اور خدمات کے عوض چند دیہات کی آمدنی زرعی رقبوں کے حساب سے اس شرط کے ساتھ جاگیر کے طور پر دیدی کہ یہ جاگیر دار ڈوگرہ حکومت کا وفادار، نمک حلال اور نیک چلن ریے گا اور یہ عطائی گی دربار خالصہ کی رضا مندی و مرضی باقی رہنے کی شرط پر دی گئی۔ اس سلسلے میں راجگان اسکردو، کھرمنگ اور خپلو کو انکی وفاداری ( اپنی قوم سے غداری) کے بدلے میں دس ہزار کی جاگیرکے طور پر چالیس چالیس گاؤں بطور جاگیر عطا ہوے۔ شگر کے راجہ کو پہلے چار ہزار روپے کی جاگیر کے طور پر بیس گاؤں دئے گئے اور بعد میں راجہ عباس خان کے پاگل ہونے کے بعد تمام جاگیر بحق سرکار ضبط کرلی تا ہم راجہ علیمردان خان کی درخواست اور عہد غلامی کے اقرار کے بعد اسے دو ہزار کی جاگیر کے طور پر دس گاؤں عطا ہوے۔اسی طرح روندو اور کریس کے راجگان کو بھی تین تین ہزار کی جاگیریں عطا ہوئیں۔ یوں تو پہلے سے لوگوں کے زیر قبضہ و زیر کاشت زمینوں اور محصولات کو ان کے مالکان اصلی کی مرضی کے بغیر راجگان کے نام کر دی گئیں یہ ” اراضی جاگیر” کہلا یا جانے لگا۔
2. زیر کاشت زمینوں کی دوسری قسم وہ اراضیات ہیں جنکی امدنی ڈوگرہ حکومت نے بطور جاگیر کسی کو نہیں دی بلکہ براہ راست حکومت وصول کرنے لگی اور ان زمینوں کے کاشتکاروں سے بطور ٹیکس یا لگان جنسی ( گندم جو) پرچی زان کے نام سے اور فی کنال نقدی بطور مالیہ سرکاری خزانے میں وصول کیا جاتا۔ ان کاشتکاروں سے باری باری کار بیگار ( پڑاؤ سترونگما) کی جبری مشقت لی جاتی تھی۔ ان زمینوں کو خود کاشت یا سرکاری زمین کا نام دیا گیا۔
3. تیسری وہ تمام اراضی جن میں بنجر میدان، پہاڑ، پہاڑی و میدانی چراگاہیں ، گزرگاہیں، جھیلیں، دریا ، جنگلات وغیرہ جو نہ کسی راجہ کو جاگیر کے طور پر دی اور نہ عوام میں سے کسی کے نام الاٹ کی گئیں بلکہ اجتماعی استعمال اور استفادے کے لئے رکھ دی گئیں انکی مالکیت حکومت وقت یعنی خالصہ سرکار ( خالصہ بمعنی ڈوگرہ سکھ اور سرکار بمعنی حکومت) قرار دیا گیا۔ اسی لئے جتنی بھی غیر اباد، غیر منقسم اور اس وقت کے ناقابل زمینیں ہیں اسکی خانہ ملکیت میں خالصہ سرکار لکھا جاتا رہا ہے۔ جس طرح سندھ کے تمام غیر منقسم میدان، جنگل، پہاڑ وغیرہ کے ملکیتی خانے میں ” سندھ سرکار” یا پنجاب میں ” حکومت پنجاب” لکھا جاتا ہے۔
یوں گلگت بلتستان میں ڈوگرہ حکومت کی بندوبست اراضی کے کاغذات میں زمینوں کو ان تین ناموں سے لکھا اور پڑھا جاتا رہا ہے۔
جب خالصہ سرکار ہی کالعدم ہو چکی ہے اور جموں وکشمیر میں یہ حکومت اور نام معدوم و غیر مستعمل ہے تو گلگت بلتستان میں لفظ خالصہ سرکار اور اسکے قوانین کی نہ کوئی قانونی حيثیت ہے اور نہ اس کی کوئی شرعی حیثیت ہے۔ جب خالصہ سرکار کی حکومت معدوم ہو چکی ہے ان سے یہاں کے باسیوں نے آزادی حاصل کر لی ہے اور اسی آزادی کو ریاست پاکستان بھی قبول کر لیتے ہیں تو اس معدوم حکومت کے قوانین بھی فاقد الاعتبار ہے ۔
اسی وجہ سے حکومت پاکستان نے 1973 میں خالصہ سرکار کے قوانین میں عطا کردہ جاگیروں اور جاگیر داری نظام کو کالعدم قرار دے دیا تو اب خالصہ سرکار کے باقی قوانین کے موجود اور قابل عمل ہونے کی قانونی اور شرعی دلیل کیا ہے؟؟۔ ڈوگرہ خالصہ سرکار کے قانون کے تحت اولاد اناث ارث پدری کا حقدار نہیں تھا خصوصاً اراضی جاگیر میں۔تو کیا قانون پاکستان میں یہ قوانین قابل قبول ہیں ؟ بلتستان میں بہت سے لوگ جاگیر داری کو آج بھی محض اسلئے برقرار رکھنا چاہتے ہیں تاکہ انکی جائیداد بہنوں، بیٹیوں اور پھوپھیوں اور انکی اولادوں کو نہ مل سکیں۔
ڈوگرہ سکھ حکومت کے قوانین جاگیر داری، لگان جنسی ونقدی کی ادائیگی، جاگیر داروں کے گھر وں میں جبری خدمات خانگی، سرکاری کار بیگار، ملکیت خالصہ سرکار جیسے قوانین کی شرعی کوئی حیثیت نہیں ہے ، اور الحمد للہ پاکستان بھی ایک اسلامی ریاست ہے لہذا سکھوں ( ڈوگرہ سکھ) کی بنائی قوانین کی حکومت پاکستان میں بھی کوئی حيثیت نہیں ہے ۔

زمینوں پر قبضہ کسی بھی قانون کے رو سے صحیح نہیں ہے
خالصہ سرکار کے نام سے زمینوں پر قبضہ کرنا نہ حکومت پاکستان کے قوانین میں کوئی گنجائش ہے اور بین الاقوامی قوانین میں ایسی کوئی گنجايش ہے ،

پاکستان کے قانون اور خالصہ سرکار
آئین پاکستان اپنے شہریوں کی جائیداد کے حق کو تسلیم کرتا ہے، آئین کا آرٹیکل 23 ہر شہری کو جائیداد حاصل کرنے، قبضہ میں رکھنے اور فروخت کرنے کا حق دیتا ہے، جبکہ آرٹیکل 24 یہ تحفظ فراہم کرتا ہے کہ کسی کو بھی اس کی مرضی کے بغیر اس کے مال سے زبردستی محروم نہیں کیا جائے گا اور اگر کسی عوامی مفاد کی خاطر ایسا کرنا ضروری ہو جائے تو یہ عمل قانون کی حدود میں رہ کر گیا جائے گا اور اس کے مال کا پورا معاوضہ ادا کیا جائے گا۔
زمین کی ملکیت کے حوالے سے بلوچستان ہائی کورٹ کا ایک عدالتی فیصلہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ جس میں چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ جمال خان مندوخیل نے 5 رکنی لارجر بینچ کی سربراہی کرتے ہوئے 18 مارچ 2021 کو اپنے ایک فیصلے میں مقامی قبائل کو غیر آباد زمینوں کا مالک قرار دے کر زمین کی ملکیت کا ایک بہت بڑا مسئلہ ختم کر دیا۔

بین الاقوامی قوانین اور خالصہ سرکار
بین الاقوامی قوانین بھی زبردستی خالصہ سرکار کے نام سے عوام سے زمینوں کو چھینے کی اجازت نہیں دیتی کیونکہ انسانی حقوق کے عالمی منشور کے آرٹیکل 17 کے شق نمبر 1 کہتا ہے کہ ”ہر انسان کو تنہا یا دوسروں سے مل کر جائیداد رکھنے کا حق حاصل ہے۔“ جبکہ شق نمبر 2 کہتا ہے کہ ”کسی شخص کو زبردستی اس کے جائیداد سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔
مندرجہ بالا گفتگو کے تناظر میں حالیہ گلگت بلتستان اسمبلی میں پیش کردہ بل جو کہ گلگت بلتستان لینڈ ریفارم ایکٹ 2024 کے نام سے مشور ہے اس بل کا عنوان يوں بیان کیا گیا ہے :گلگت بلتستان کے لوگوں کو قابل تقسیم اراضی پر ملکیتی حقوق دیکر اس زمین کے موثر استعمال کا طریقہ کار فراہم کرنا جس سے گلگت بلتستان کے لوگ استفادہ حاصل کر سکيں” اور 10 ابواب پر مشتمل ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس بل کے ذریعہ سے تمام حکومتی کارندوں کو آپ پر مسلط کرنا ہے لہذا اس بل کے بار ے میں تمام علماء کرام اور گلگت بلتستان کے وکلاء برادری کو غور و فکر کرنا ہوگا اور اس میں موجود کمی بیشی کو دور کرنے کے بعد ہی اسمبلی میں پیش کیا جائے ۔

علماء کی ذمے داری
چونکہ علماء کرام کا محفل ہے لہذا ن مسائل کے بارے میں قرآن اور اہل بیت (ع) کی نظر میں آپ کی ذمہ داری کی طرف اشارہ کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں ، قرآن کریم کی سورہ کہف کی آیات کے مطابق غریب اور مومنین کے اموال اور ان کے ایمان کو محفوظ رکھنا وارث انبیاء ہونے کے ناطے علماء کی اہم ترین ذمہ داری ہے حضرت موسی (ع)ایک پیغمبر اولو العزم ہونے کے باوجود عملی طور پر اسی تعلیم کو حاصل کرنے کے لئے اپنے تمام کاموں کو چھوڑ کر حضرت خضر علیہ السلام کے ساتھ میدان اور دریا کی طرف نکل جانے کا خداکی طرف سے حکم آیا ، اور جن تین چیزوں کی تعلیم حاصل کرنے کا خدا کی طرف سے حکم تھا اور حضرت خضر علیہ السلام نے جو سیکھایا وہ یہی تھے کہ
1 غریبوں کو تحفظ فراہم کرنا
فقیر و مسکین اور غریب عوام کے اموال کو ظالم حکمرانوں سے جیسا بھی ہو بچانا آپ کی ذمہ داری ہے :” أَمَّا ٱلسَّفِينَةُ فَكَانَتۡ لِمَسَٰكِينَ يَعۡمَلُونَ فِي ٱلۡبَحۡرِ فَأَرَدتُّ أَنۡ أَعِيبَهَا وَكَانَ وَرَآءَهُم مَّلِكࣱ يَأۡخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصۡبا”(کہف/ 79)یہ فرما رہا ہے کہ چونکہ ظالم بادشاہ آکر ہر ایک کی کشتیوں کو غاصبانہ طور پر لے رہا تھا لہذا میں نےاس کے کشتی میں سوراخ کر لیا تا کہ ان غریبوں کا یہ مال ظالم بادشاہ سے محفوظ رہ سکے ،
2 آپ کی دوسری ذمہ داری لوگوں کی ایمان کو بچانا ہے :” وَأَمَّا ٱلۡغُلَٰمُ فَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤۡمِنَيۡنِ فَخَشِينَآ أَن يُرۡهِقَهُمَا طُغۡيَٰنࣰا وَكُفۡرا”(کہف/ 80) چونکہ یہ جوان مومن والدین کو کفر و طغیان کی طرف لے جانا تھا لہذا میں نے ان کو بچا لیا ،
3 اور تیسری ذمہ داری گاوں والے آپ کو کھانا پینا بھی نہ دے ، تب بھی ان کے گرے ہوئے دیواروں کو بلند کرنا ہے ، اور لوگوں کے اموال کو ان کے آيندہ آنے والے نسلوں کے لئے محفوظ کر کے رکھنا ہے :”وَأَمَّا ٱلۡجِدَارُ فَكَانَ لِغُلَٰمَيۡنِ يَتِيمَيۡنِ فِي ٱلۡمَدِينَةِ وَكَانَ تَحۡتَهُۥ كَنزࣱ لَّهُمَا وَكَانَ أَبُوهُمَا صَٰلِحࣰا فَأَرَادَ رَبُّكَ أَن يَبۡلُغَآ أَشُدَّهُمَا وَيَسۡتَخۡرِجَا كَنزَهُمَا رَحۡمَةࣰ مِّن رَّبِّكَۚ وَمَا فَعَلۡتُهُۥ عَنۡ أَمۡرِي۔(کہف/ 82)۔

حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی شکایت
حضرت زہرا مرضیہ (سلام الله علیها )اپنی اس تاریخی خطبہ میں اسلام کے تمام عقائد توحید سے لے کر قیامت تک کے ان اعلی معارف کو بیان فرمانے کے ساتھ ساتھ اسی بات کی طرف اشارہ فرما رہی ہے، اور خاص کر کے انصار کی طرف متوجہ ہو کر اپنی اسی مظلومیت اور چھینی ہوئی حق کے مقابلہ میں سستی پر شکایت کرتی نظر آتی ہیں اور یہ فرماتی ہے کہ حکومت وقت کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ لوگوں کے اموال کو مختلف ناموں سے چھین لیں ۔ اگر امام خمینی (رہ )نے فلسطین کے مسئلہ کو مسلمانوں کا اہم ترین مسئلہ قرار دیا ہے اور آج اگر رہبر معظم انقلاب اسلامی (حفظہ اللہ تعالی)فلسطین کے حق کے لئے اپنے سب کچھ قربان کر کے خط مقدم میں نظر آتے ہیں ، وہ قرآن کریم اور اہل بیت اطہار (ع) کی انہیں تعلیمات کی روشنی میں ہے ،آج ان تمام مسائل میں ان کے فرمایشات ہی ہمارے لئے راہ گشا ہے۔
خداوند متعالی سے دعا ہے کہ ہم سب کو بھی اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہو کر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے ۔ والسلام علیکم
urdu news, Gilgit-Baltistan Pakistan Legal and Shariah status

نگرضلع نگر میں گھریلو خواتین کو جدید خطوط پر سبزیات اگانے اور باغبانی کےلئے خواتین کو تربیت دی جائے گی۔ ثمینہ شاہین نو تعینات ڈپٹی ڈائریکٹر محکمہ زراعت ضلع نگر

بینظیر شہید ہسپتال گمبہ سکردو میں ڈاکٹر کی عدم موجودگی پورے حلقہ 2 کے لئے مسائل اورپریشانی کا باعث بن رہا ہے زاہدحسین کامل ایڈووکیٹ صدر انصاف لائیر فورم بلتستان ڈویژن

استور میں امام مہدی علیہ السلام کی شان میں گشاخی کرنے کا واقعہ گلگت بلتستان میں مذہبی منافرت پھیلانے کی ناپاک سازش ہے، صدر مجلس وحدت المسلمین شگر شیخ کاظم ذاکری

ڈائریکٹر جنرل اسپیشل کمیونیکیشنز آرگنائزیشن میجر جنرل عمر احمد شاہ کا ایس سی او کے زیر کفالت سکردو میں خصوصی افراد کے کیے قائم “انڈپینڈنٹ لیونگ سینٹر” کا دورہ

شگر ، امام موسی الکاظم کی شہادت کے سلسلے میں مجالس و جلوس عزا منعقد ہوئیں،ا ستور میں تکفیری ملا کی جانب سے کیا جانے والا گستاخی کے پیچھے مقاصد کچھ اور ہے. معروف عالم دین شیخ مبارک علی عارفی

شگر کے بالائی علاقے برالدو میں ایس کام فورجی غائب ، صارفین پریشان ، بی آئی ایس پی سے مستفید ہونے والے خواتین کو ادائیگی بھی رک گئی

100% LikesVS
0% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں