urdu news, Gilgit baltistan land reforms act 2024 0

لینڈ ریفارمز ایکٹ ، ایک تحقیقی و تنقیدی جائزہ ، فاچو مشرف حسین ایڈووکیٹ
پچھلے چند دنوں میں گلگت بلتستان میں سب سے زیادہ تجزیہ و تبصرہ ہونے والا موضوع لینڈ ریفارمز ایکٹ 2025 ہے۔ ایک ذمہدار شہری اور قانون کا طالب ہونے کے ناطے میں یہ اپنی قومی ذمہ داری سمجھتا ہوں کہ جذباتی اور بے بنیاد تجزیہ کرنے کے بجائے تحقیق اور سنجیدہ مطالعے کے بعد علمی و تجرباتی رائے سے ذہن میں موجود الجھنوں کو دور کرنے کی کوشش کروں، میں نے کوشش کی ہے کہ اس ایکٹ کے مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں پر غیر جانبداری سے غور کروں تاکہ اس ایکٹ کا صحیح اور حقیقی نقشہ پیش کر سکوں۔
اس بل کے جائزے سے قبل، اس کا ایک مختصر پس منظر جاننا ضروری ہے۔ سال 2023 میں “گلگت بلتستان لینڈ ریفارمز ایکٹ” کے عنوان سے چند سفارشات منظرِ عام پر آئیں، جن پر سوشل میڈیا پر کچھ وقت کے لیے بحث ہوئی، لیکن پھر یہ معاملہ خاموشی اختیار کر گیا۔ وزیر اعلیٰ خالد خورشید کے دورِ حکومت میں لینڈ ریفارمز کے حوالے سے قانون سازی کی کوششیں تیز ہوئیں، لیکن بعد ازاں سیاسی تبدیلیوں کے نتیجے میں جناب حاجی گلبر خان وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔ مورخہ 9 جولائی 2024 کو ہونے والے کابینہ کے اجلاس میں لینڈ ریفارمز سے متعلق تین مسودات پیش کیے گئے:
1. گزشتہ حکومت کا تیار کردہ مسودہ،
2. امجد ایڈووکیٹ کی طرف سے پیش کیا گیا مسودہ،
3. بیوروکریسی کی جانب سے تجویز کردہ مسودہ۔
ان تینوں مسودات کو جانچ پڑتال کے لیے “خصوصی قائمہ کمیٹی برائے قانون سازی امور” کے سپرد کر دیا گیا۔ اس کمیٹی نے مختلف مراحل پر مشاورت کے بعد ان کا تفصیلی تجزیہ کیا، ضروری ترامیم، اضافے اور حذف کے بعد ایک حتمی مسودہ بعنوان “گلگت بلتستان لینڈ ریفارمز بل 2024” تیار کیا۔ چونکہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینا ضروری تھا، اس لیے یہ بل عوام کے سامنے پیش کیا گیا۔ عوام کی جانب سے اس پر شدید ردعمل سامنے آیا، اور متعدد اعتراضات اٹھائے گئے، جن میں سے ایک بطور مثال شق نمبر 8 تھا جس میں گورنمنٹ لینڈ کی تعریف کو تھی جس کو عوامی مفادات سے متصادم قرار دیا گیا۔ اس بل کو موجودہ حالات میں عوام نے مسترد کر دیا اور تمام متعلقہ فریقین نے اس پر ترامیم تجویز کیں۔ بلتستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز اور وکلا برادری نے اپنا ڈرافٹ بھی پیش کیا۔
حکومتی دعوؤں کے مطابق، تمام ترامیم کو شامل کر کے 19 مئی کو یہ ڈرافٹ اسمبلی میں پیش کیا گیا، تاہم اپوزیشن نے واک آؤٹ کر دیا، جس کے باعث یہ بل اُس وقت پاس نہ ہو سکا۔ بعد ازاں اپوزیشن اور امجد ایڈووکیٹ کی طرف سے مزید ترامیم پیش کی گئیں (حالانکہ وہ پہلے دن دعویٰ کر چکے تھے کہ اس بل میں کوئی نقص نہیں ہے)۔ بالآخر 21 مئی کو یہ بل اسمبلی سے پاس ہو کر “گلگت بلتستان لینڈ ریفارمز ایکٹ 2025 بن گیا۔
اس ایکٹ کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے. پہلا حصہ: ملکیت کے تعین سے متعلق بنیادی تعریفات، پر مشتمل ہے جبکہ دوسرا حصہ: شق نمبر 3 سے آگے شروع ہونے والے ضوابط اور طریقہ کار سے متعلق ہے۔
ہم فی الحال صرف پہلے حصے پر توجہ مرکوز کریں گے، جو زمین کی ملکیت کے تعین سے متعلق ہے۔
سب سے پہلے شق نمبر 2 کی ذیلی شق 5، 6 اور 7 کا جائزہ لیتے ہیں، جن میں “مشترکہ زمین” کی تعریف اور اقسام بیان کی گئی ہیں یعنی “مشترکہ قابل تقسیم اراضی” اور “مشترکہ ناقابل تقسیم اراضی”۔
اس ایکٹ کی سب سے مثبت بات شق نمبر 2(5) میں سامنے آتی ہے، جہاں مشترکہ زمین کی نہایت جامع تعریف کی گئی ہے۔ بندوبست اور غیر بندوبست اضلاع میں “حق دارانِ اراضی” کی مشترکہ ملکیت کو تسلیم کیا گیا ہے۔ مستقل اضلاع میں ایسی زمینیں، چراگاہیں اور نالے شامل ہیں جو ریونیو ریکارڈ میں “خالصہ سرکار” یا “شملات دہ” کے طور پر درج ہوں، نیز وہ بنجر یا چراگاہی زمینیں جن پر دیہاتیوں کو استعمال کا حق حاصل ہو۔ یہاں سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ تمام زمینیں جو ریونیو ریکارڈ میں “خالصہ سرکار” کے تحت درج تھیں، اب مشترکہ زمین کہلائیں گی۔ حکومت اسی شق کے بنا پر دعویٰ کر رہی ہے کہ اس قانون کے ذریعے گلگت بلتستان سے “خالصہ سرکار” کا کالا قانون ختم کر دیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ قدرتی وسائل جیسے جنگلات، دریا، جھیلیں، گلیشیئرز، نالے، تالاب، عوامی کنویں، دشوار گزار پہاڑی علاقے، موسمی چراگاہیں، سڑکیں، کھیل کے میدان، قبرستان، عبادت گاہیں، اور ورثے کی جگہیں بھی مشترکہ ناقابل تقسیم اراضی میں شامل کر دی گئی ہیں۔
یہاں ایک بنیادی قانونی سوال پیدا ہوتا ہے کہ مشترکہ زمین، خواہ قابل تقسیم ہو یا ناقابل تقسیم، اس کی ملکیت کس کے پاس ہوگی؟
اگرچہ قانون میں واضح الفاظ میں یہ درج نہیں کہ اس کی ملکیت عوام کی ہوگی، تاہم لفظی تشریح اور قانون سازوں کی نیت سے یہی ظاہر ہوتی ہے کہ ان زمینوں کا اصل مالک عوام ہی ہوں گے۔ اس طرح پہلی بار گلگت بلتستان کے تمام قسم کے زمینوں کو عوامی ملکیت میں دیا گیا ہے ۔ جو کہ اس سے پہلے کبھی کسی قانون میں موجود نہیں تھا۔ اس قانون کے نتیجے میں کئی پیچیدہ قانونی مسائل کا حل ممکن ہو گا۔ مثلاً اگر کسی دو دیہات یا برادریوں کے مابین چراگاہ یا “داس” کے متعلق تنازع ہو اور معاملہ عدالت میں جائے، تو پہلے ریونیو ریکارڈ میں ان زمینوں کو “خالصہ سرکار” قرار دیا جاتا تھا، جس سے حکومت فریق بن جاتی تھی اور معاملہ پیچیدہ ہو جاتا۔ بعض اوقات حکومت ایسی زمینوں کو ایکوائر کر لیتی تھی اور عوام محروم رہ جاتے تھے۔ اس نئے قانون سے ایسی پیچیدگیوں میں نمایاں کمی آئے گی، اور “خالصہ سرکار” کا تصور ختم ہو جائے گا۔
ایک اور اہم تعریف جو ملکیت کے تعین کے حوالے سے اس ایکٹ میں دیا گیا ہے اور شروع سے ہی تنقید کا نشانہ بنا رہا وہ شق نمبر 2 کی ذیلی شق 10 ہے، جس میں “حکومتی اراضی” کی تعریف بیان کی گئی ہے۔ اس میں وہ تمام زمینیں شامل کی گئی ہیں جو گلگت بلتستان حکومت یا کسی وفاقی ادارے کو الاٹ کی گئی ہوں، حاصل یا خریدی گئی ہوں، یا ان کے قبضے میں ہوں۔ یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ اس شق میں کافی غور ہوا اور ابتدائی طور پر پیش کردہ ڈرافٹ میں ترمیم کیا گیا لیکن اب بھی یہ تعریف واضح نہیں جیسے کہ “قبضے میں ہونا” ایک ایسا غیر واضح اصطلاح ہے جو ابہام کا باعث بن سکتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گلگت بلتستان میں بہت سے ایسے علاقے موجود ہیں جہاں سرکاری اداروں نے قبضہ کیا ہوا ہے لیکن مقامی آبادی انہیں اپنی زمینیں سمجھتی ہے، اور بعض معاملات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ کیا ایسے تمام علاقے جو محذ قبضے کے بنیاد پر حکومتی اراضی شمار کیے جائیں گے؟ کیا دیوسائی، مینی مرگ اور دیگر اہم علاقے بھی حکومتی زمین بن جائیں گے، جن پر پہلے ہی قبضہ مافیا کی نظریں جمی ہوئی ہیں؟ بہر حال کلی طور پر تو یہی لگتا ہے کہ یہ قانون عوامی مفاد میں ہے ۔ لیکن اس میں ابھی بھی کچھ قانونی خلاء موجود ہے جیسے ترامیم کے ذریعے ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاؤہ دوسرے حصے میں جو کہ ضوابط سے متعلق ہے ترامیم کی ضرورت ہے ۔
urdu news, Gilgit baltistan land reforms act 2024

100% LikesVS
0% Dislikes

لینڈ ریفارمز ایکٹ ، ایک تحقیقی و تنقیدی جائزہ ، فاچو مشرف حسین ایڈووکیٹ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں